جنون کی نہر کا عذاب

کہا جاتا ہے کہ پاگل پن کا طاعون کسی شہر کے ایک نہر میں نازل ہوا تھا، اور جب بھی کوئی اس نہر سے پانی پیتا تھا تو وہ پاگل ہو جاتا تھا۔ پاگل لوگ ایک ایسی زبان بولتے جو عقلمند لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے، اور آئے روز پاگلوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔

بادشاہ سلامت نے اس وباء کا خطرہ اس وقت بھانپ لیا جب طاعون کی بیماری کا پھیلاؤ شاہی محل کی دہلیز پر آپہنچا۔ ایک دن صبح، ملکہ بھی پاگل ہو کر پاگلوں کے ایک گروہ سے مل گئی اور علی الاعلان بادشاہ کے پاگل پن کی شکایت کی۔

بادشاہ نے وزیر سے کہا

: “شاہی دربان چی کہاں تھے؟”

وزیر

: “بادشاہ سلامت، دربان چی کو جنون کی بیماری ملکہ سے پہلے لگی ہوئی تھی۔”

بادشاہ

: “تو فوراً ڈاکٹر کو بلا لو۔”

وزیر

: “وہ تو عرصہ ہوا جنون کی بیماری کا شکار ہوا ہے۔”

بادشاہ:

“یہ کیسی آفت ہے؟ کیا شہر میں کوئی اس بلا سے بچا ہے؟”

وزیر

: “بادشاہ سلامت، میرے اور آپ کے علاوہ پورے شہر میں کوئی نہیں بچا ہے۔”

بادشاہ

: “اے میرے مولیٰ، مجھے پاگلوں کی دنیا کی حکمرانی کی آزمائش سے بچا۔”

وزیر: “بادشاہ سلامت! معذرت کے ساتھ، وہ تو پورے مملکت میں یہ افواہ پھیلا چکے ہیں کہ ہم عقل مند ہیں، اور پورے ملک میں صرف دو پاگل ہیں: بادشاہ اور اس کے وزیر۔”

بادشاہ

: “یہ تو بکواس کر رہے ہیں۔ نہر جنون سے پانی وہ پیئے ہیں اور طعنے ہمیں دے رہے ہیں۔”

وزیر

: “بادشاہ سلامت، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے نہر جنون سے پانی پاگل پن سے بچاؤ کے لیے پیا ہے، البتہ صرف دو آدمی، بادشاہ اور اس کا وزیر، جنہوں نے اس نہر سے پانی نہیں پیا، وہ پاگل پن کے شکار ہوگئے ہیں۔”

وزیر

: “بادشاہ سلامت، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری حیثیت ان کے بھاری اکثریت کے سامنے ریت کے دو ذروں سے زیادہ نہیں ہے، اور پوری دنیا بھی انہیں عقل مند سمجھتی ہے۔”

بادشاہ

: “وزیر صاحب، تو مجھے بھی اس نہر جنون سے پلا دو، اس لیے کہ ‘پاگل پن تو یہ ہے کہ کوئی آدمی پاگلوں کی دنیا میں عاقل ہو کر رہے۔'”


تبدیلی کی اہمیت اور خود پر اعتماد

یقیناً ایسے وقت میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ارادے اور منصوبے بلند وبالا ہوں اور ان کی رائے باقی دنیا سے مختلف ہو۔ ایسے وقت میں کسی سے متاثر ہوئے بغیر اور نہر جنون سے پانی پیئے بغیر اپنے موقف پر ثابت قدم رہنا، فضل خداوندی ہے۔

کیا کبھی آپ سے کسی نے کہا ہے: “کہ باقی پوری دنیا غلط ہے اور صرف آپ صحیح رائے رکھتے ہیں؟” اس کا مطلب یہ ہے کہ “وہ آپ کو نہر جنون سے پانی پینے کی دعوت دے رہا ہے۔”

سوچیئے! جب آپ اپنے دفتر یا ورکشاپ میں داخل ہوتے ہیں اور آپ کا کوئی ایسا ساتھی جو عادتاً دیر سے آتا ہے اور بہت معمولی منصوبے پر عمل پیرا ہوتا ہے، کیا آپ اس سے متاثر ہو کر اپنے بلند وبالا پرواز چھوڑ دیتے ہیں اور معمولی اور چھوٹے منصوبوں پر اکتفا کرتے ہیں؟


تاریخی مثالیں اور سبق

کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کسی غیر متوقع شخص کی زبان پر کلمہ حق جاری کر دیتا ہے، اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی صاحب الرائے کی سوچ کسی نتیجے پر پہنچ جاتی ہے لیکن عام لوگوں کی رسائی اس تک سینکڑوں سال بعد ہوتی ہے، جیسا کہ اٹالین مشہور سائنسدان گلیلیو (1564ء – 1642ء) نے یہ انکشاف کیا کہ زمین کروی (گول شکل) ہے، جس کے نتیجے میں انہیں جیل بھیجا گیا۔ وہ وہیں مر گئے، اور 350 سال بعد ان کی بات تک دوسرے سائنسدانوں کی رسائی ہوئی، معلوم ہوا کہ اس وقت گلیلیو کی بات ٹھیک تھی۔


خود پر اعتماد اور صحیح فیصلہ

کیا ذاتی رائے رکھنا ضروری ہے، اور اس پر اصرار کرنا صحیح طرز عمل ہے؟

پرانے زمانے میں ایک مضمون نگار تھا جس کا تجربہ کم تھا، وہ ہمیشہ غیر سنجیدہ آراء قائم کرکے اپنے مضامین سے لوگوں کو پریشان کرتا تھا، یہاں تک کہ انہیں معزول کیا گیا۔ اور واقعی ایک عرصہ بعد پتہ چلا کہ ان کی ساری باتیں بکواس تھیں۔ تو ایسے مضمون نگار کو چاہیے کہ وہ نہر جنون کے پانی پیئے۔

اسی طرح ہٹلر کی کم عقلی لے لو جب اس نے اپنے وقت کے عالمی استعمار برطانیہ، روس، اور بڑے معاشی اور اقتصادی قوت امریکہ سب کو بیک وقت چیلنج کر دیا، حالانکہ جرمنی کی نہ معاشی حالت اس وقت ٹھیک تھی اور نہ ہی وہ زیادہ جنگی تجربات کے حامل تھے۔ وہ یہ فیصلہ کر گئے کہ ہم ان قوتوں کے ساتھ لڑیں گے آخری فوجی کے بقائے تک۔ یقیناً ہٹلر نے زہر خواری اور خودکشی کے مقابلے میں تمنّا کی ہوگی کہ کاش وہ جنون کے پانی کے بدلے عقل مندی کا وہ پانی پیتا جو ان کے مشیروں نے پیا تھا۔


فیصلہ کرنا اور ثابت قدم رہنا

تو حل کیا ہے؟ جنون کا پانی پینا یا چھوڑ دینا؟

حقیقت حال یہ ہے کہ گلاس ایک قسم نہیں بلکہ دو قسم کے ہیں:

  • عقل والا گلاس

  • : جو درست رائے، حکمت، اور عقل مندی پر مشتمل ہے۔ ضد چھوڑ کر بلا جھجھک ایسے گلاس سے پانی پی کر ہوشیاروں کی جماعت میں شامل ہونا انتہائی مناسب اقدام ہے۔
  • جنون والا گلاس:

  • جس میں آپ کو ہر وہ چیز ملے گی جو عام لوگوں کے طرز معاشرت میں موجود ہوتی ہے، خواہ وہ کتنا ہی غلط ہو۔ کبھی کبھی اس کے دائرے میں خوف، ذلت کے ساتھ ساتھ ایسے خطرناک موڑ بھی ہوتے ہیں جو بظاہر ترقی کی راہ دکھائی دیتے ہیں مگر اس سے انسان ایک گہری کھائی میں جا کر ہلاک ہو جاتا ہے، حالانکہ اس طرز زندگی کو عام مقبولیت بھی حاصل ہے۔

اگر آپ نے بھی اسے اپنا لیا تو گویا آپ بھی ان لوگوں کی صفوں میں جا ملے جو جنون کے شکار ہیں اور ان کی دلکی آنکھ کو جہالت کی تاریکیوں نے کورا کر دیا۔

اور اگر آپ اسے چھوڑ دیں گے تو ممکن ہے کہ لوگ آپ کا عارضی بائیکاٹ کردیں گے، مگر یہ کہ آپ حق پر ہوں گے۔ لیکن اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اپنی پختگی اور حکمت پر کتنا اعتماد کرتے ہیں، اور جو کچھ آپ مانتے ہیں اسے ثابت کرنے میں آپ کتنے پُرعزم ہیں۔


نتیجہ

فیصلہ کر کے اس پر ڈٹے رہنے میں، جبکہ مخالفین کی تعداد زیادہ ہو، احتیاط برتنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ بعض اوقات کچھ لوگ آپ کے جذبات کی تائید ایسے موقع پر کرتے ہیں جہاں آپ اپنے فیصلے کی درستگی ثابت نہیں کر سکتے، تو آپ لازمی ایک بند گلی میں ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے جہاں فیصلے پر عمل درآمد کی استطاعت نہ ہو، وہاں فیصلہ لینے کا فائدہ بھی نہیں ہے۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو جنون کے گلاس سے پانی پینے کے ہمیشہ معارض رہتے ہیں لیکن وہ لوگ سوائے مخالفت کے کچھ نہیں جانتے ہیں۔ لوگوں کا ان پر اعتماد اس لیے کمزور ہوجاتا ہے کہ وہ جو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اسے ثابت کرنے سے قاصر ہیں، یا اس لیے کہ ان کے پاس اپنی رائے و سوچ ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔

اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔

Pin It on Pinterest

Share This

Share This

Share this post with your friends!

Share This

Share this post with your friends!

Open chat
1
Scan the code
Hello
Can we help you?