by lcfpk.org | Sep 19, 2024 | Uncategorized
ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات
پچھلے مضمون میں، ہم نے ہوم اسکولنگ کا نظریہ تعلیم متعارف کروایا تھا۔ آج، ہم اس کی ضروریات، فوائد، مشکلات اور غلط فہمیوں پر بات کریں گے۔
ہوم اسکولنگ کی ضروریات
ہوم اسکولنگ شروع کرنے سے پہلے اس کی وجہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ کیوں آپ اس کو ترجیح دے رہے ہیں اور آپ کی منزل کا تعین بھی ناگزیر ہے کہ آپ اس تعلیم سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سخت محنت، تڑپ، اور اللہ پر بھروسہ ان کے بغیر ہوم اسکولنگ ایک ادھورا خواب ہوگا۔
ہوم اسکولنگ کے فوائد
- خاندان کی تعمیر: ہوم اسکولنگ ایک اچھے خاندان اور شخصیت کو پروان چڑھاتی ہے۔
- دینی اور دنیاوی تعلیم: بچہ کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے۔
- پیسوں کی بچت: ہوم اسکولنگ پیسوں کی بچت کرتی ہے۔
- اچھی صحت: بچہ صحت مند رہتا ہے۔
- غلط ماحول سے بچاؤ: بچہ غلط ماحول سے محفوظ رہتا ہے۔
ہوم اسکولنگ کی مشکلات
- تنقید: روایتی نظام والے ہوم اسکولنگ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بچہ کی زندگی ضائع کر رہے ہیں۔
- استاد اور نصاب کا انتخاب: استاد اور نصاب کا انتخاب ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔
- گھر کے کام اور مشترکہ خاندان: گھر کے کام، مختلف عمر کے بچے، اور مشترکہ خاندان جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہوم اسکولنگ کے بارے میں غلط فہمیوں
- منظم نہ ہونا: کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بچے منظم نہیں ہوتے اور گھر میں تعلیم دینے سے گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
- ٹیوشن سمجھنا: ہوم اسکولنگ کو لوگ ٹیوشن سمجھنے لگتے ہیں، جبکہ یہ فطرت اور عملی زندگی بھی شامل ہے۔
ہوم اسکولنگ کے مختلف طریقہ کار جن کے صرف نام یہاں ذکر کر لیتا ہوں۔ جن حضرات کی دلچسپی ہوگی وہ خود اس کو سرچ کر لیں گے۔
Unschooling
Co.Op
Charlotle mason
Montessori
Eclectic
تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
.اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
ہمارے ہوم اسکولنگ اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی سیریز کے دیگر 11 مضامین بھی دیکھیں، جو کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ یہ سلسلہ آپ کو بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے طریقے اور ہوم اسکولنگ کے بارے میں جامع معلومات فراہم کرتا ہے۔
by lcfpk.org | Sep 19, 2024 | Uncategorized
بچوں کو کب اسکول میں داخل کرایا جائے؟؟
اسکول میں داخلے کا وقت:
ہمارے معاشرے میں ایک عام رواج یہ چل پڑا ہے کہ بچہ جب ذرا بڑا ہو جاتا ہے تب والدین کو ایک فکر لگ جاتی ہے کہ اب اس بچے کو کس اسکول میں داخل کرائے۔ جن والدین کے پاس پیسہ ہوتا ہے وہ تو اپنے شہر کے بڑے پرائیوٹ ادارے میں داخل کرا دیتے ہیں اور جو غریب طبقہ ہوتا ہے وہ سرکاری اسکولوں کو رخ کرتے ہیں اور مڈل کلاس طبقہ وہ اپنے علاقے میں قریب کوئی پرائیوٹ اسکول کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اسکول جانے کا نفسیاتی اثر:
ان تمام اسکولوں میں شروع شروع میں بچے خوشی خوشی جاتے ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد بچوں کا اسکول جانے کو دل نہیں کرتا ہے۔ پھر والدین انہیں زبردستی بھیجتے ہیں جس دن چھٹی ہوتی ہے وہ دن بچے کی زندگی کا بہترین دن ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اسکولوں میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو مار دیا جاتا ہے۔ وہاں روزانہ کی بنیاد پر بچوں کی عزت نفس مجروح کیا جاتا ہے، انکی نیند پوری نہیں ہوتی، اور ان کو بات بات پر یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم غلط ہو۔ جو ٹیچر نے کہا ہے وہ صحیح ہے اور تم ایک کھلونے ہو جو ٹیچر کی مرضی کے مطابق چلے گا۔ بچوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا اور ان کو پہلے دن سے ایسی چیزوں میں لگایا جاتا ہے جو بے مقصد ہوتی ہیں۔ اُن کی دلچسپی والی چیزیں بہت کم ہوتی ہیں۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر بچے اسکول جانے سے بیزار ہوتے ہیں۔ جس کے بعد وہ علم سیکھنے کے لیے نہیں بلکہ امتحان پاس کرنے اور ڈگری حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں جب انہیں ڈگری مل جاتی ہے، پھر وہ کبھی غلطی سے بھی قلم و کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتے۔
ہوم اسکولنگ کا فائدہ:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچہ کو کتنی عمر میں اور کس اسکول میں داخل کیا جائے گا؟ جس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کے لیے 7 سال تک سب سے بہتر ہوم اسکولنگ ہے۔ ہوم اسکولنگ ایک جدید نظریہ تعلیم ہے جس میں والدین بچے کے لیے اپنی مرضی کے استادوں اور نصاب کا انتخاب کر کے انہیں گھر پر ہی تعلیم دیتے ہیں۔ ہوم اسکولنگ روایتی اسکولوں کی تعلیم سے مختلف ہے کیونکہ:
-
وقت اور کلاس کی آزادی:
ہوم اسکولنگ میں بچہ وقت، کلاس اور امتحان کے دباؤ سے آزاد ہوتا ہے۔
-
حسب خواہش نصاب:
- والدین اساتذہ کو بتا دیتے ہیں کہ ہم اس سال اپنے بچے کو یہ چیزیں سکھانا چاہتے ہیں، اور اساتذہ اپنی سہولت کے مطابق نصاب بناتے ہیں۔
-
فطرت کے نظارے:
گھر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کو فطرت کے نظارے، جیسے سمندر، پہاڑ، دریا، چرند، پرندے، درخت، پھول، باغات وغیرہ، بھی دکھائے جاتے ہیں۔ جہاں بچے کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں اور کھیلتے ہیں، جس سے اُن کے جسم اور ذہن پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
-
عملی زندگی کے تجربات:
- بچوں کو عملی زندگی میں خاندان اور معاشرے میں زندگی کے طور طریقے سکھائے جاتے ہیں، جو بچہ نہایت تیزی سے اور دلچسپی کے ساتھ سیکھتا ہے۔
تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
.اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
by lcfpk.org | Sep 19, 2024 | Uncategorized
خود اعتماد بنانے کے طریقے
1. خود اعتمادی کا خیال رکھیں
پچھلے مضامین میں ہم نے بچوں کو انگلش یا عربی سکھانے کے اصول بتائے تھے، اور وہ اصول صرف انگلش یا عربی تک محدود نہیں بلکہ کوئی بھی زبان سیکھنی ہو تو یہی اصول و آداب ہیں۔
2. دوسروں کے ردعمل کو کیسے سنبھالیں
جب بچہ انگلش یا عربی بولتا ہے اور غلطی کرتا ہے یا آپ جب بولتے ہیں اور غلطی کرتے ہیں، تو آس پاس کے لوگ ہنستے ہیں یا مذاق اُڑاتے ہیں۔ یہ مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا علاج کیا ہے؟
1. سوچئے کہ اگر آپ کے دوست آپ کے لطیفے پر ہنس رہے ہیں، تو یہ خوشی کی بات ہے، کیونکہ کسی کو خوش کرنا بھی ثواب ہے۔ لوگ آپ پر ہنس رہے ہیں تو اسے اپنی خامیوں کے بجائے ایک موقع سمجھیں کہ آپ لوگوں کو خوش کر رہے ہیں۔
2. مایوسی گناہ ہے، اس لیے مایوس ہونے کے بجائے محنت کریں اور خود پر اعتماد رکھیں۔
3. یہ سوچئے کہ اگر آپ انگلش یا عربی سیکھتے وقت غلطیاں کریں گے، تو کچھ لوگ ہنسیں گے، لیکن جب آپ سیکھ جائیں گے، تب آپ انہیں خود پر ہنسنے کا موقع دیں گے۔
3. اپنے آپ پر ہنسیں
اگر لوگوں کے ہنسنے سے پہلے آپ خود پر ہنسیں تو لوگوں کی ہنسنے کی طاقت کم ہو جائے گی۔ جب آپ خود پر ہنسیں گے، تو لوگوں کی ہنسی آپ کو پریشان نہیں کرے گی، اور وہ آپ کے ردعمل سے پریشان ہو کر ہنسنا چھوڑ دیں گے۔
4. جلدی سیکھنے کا عزم
لوگوں کے ہنسنے پر مایوس ہونے کے بجائے، محنت کریں اور جلدی سیکھنے کا عزم رکھیں۔ اگر آپ چار مہینے میں سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اسے دو مہینے میں سیکھنے کی کوشش کریں۔
5. بچوں کو خود اعتمادی کے اصول سکھائیں
بچوں پر ہنسنے کے بجائے ان کی خود اعتمادی بڑھائیں۔ ویڈیوز اور آڈیوز بنائیں، آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر باتیں کریں، اور خود کو سیکھنے کا موقع دیں۔ غلطیوں کو بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ انہیں سیکھنے کا حصہ مانیں۔
تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
by lcfpk.org | Sep 19, 2024 | Uncategorized
بچوں کو عربی یا انگلش بولنا کیسے سکھائیں؟
ہمارے معاشرے میں، اگر کسی کو کسی زبان میں بولنا آ جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اسے یہ زبان آتی ہے۔ اگر ہم کوئی زبان سیکھنا چاہیں، تو استاد ہمیں اکثر اسٹیج پر سب کے سامنے بولنے کا کہتے ہیں، جو کہ پبلک اسپیکنگ ہے اور بہت ہی مشکل کام ہے۔ اسٹیج پر انسان اپنی زبان نہیں بول سکتا، چہ جائیکہ کوئی دوسری زبان۔
اصل میں بولنا ایک طرف سے نہیں ہوتا، بلکہ بولنے اور سننے کے ملاپ سے جو گفتگو و بات چیت بنتی ہے، اسے بولنا ہم کہتے ہیں۔ ویسے، اسٹیج پر آ کر رٹا لگائی تقریر پڑھ لینا یا سنا دینا، اسے بولنا نہیں کہتے۔ جب بچے نے پڑھنا، لکھنا، اور سننا انگلش یا عربی میں شروع کر دیا، اب آخری مرحلہ اس کے بولنے کا آتا ہے، جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ پہلے تین کام صحیح ہوئے ہیں یا نہیں۔
بچے کو بولنا سکھانے کے اقدامات
1. بچے سے زیادہ سے زیادہ بات چیت کریں
- بچے کو بولنے کا موقع دیں جتنا وہ بولے گا، اتنی اس کی زبان چلنے لگے گی۔ لیکن اس میں دو باتوں کا خیال رکھیں:
- اسے بولنے پر مجبور نہ کریں، جب وہ خود بولنا چاہے، تب اس سے بات کریں۔
- اس کی غلطیاں نہ پکڑیں۔ ہمارے معاشرے میں، جب بچہ کچھ لکھ کر دکھائے یا وہ بات چیت کرنا چاہے، تو ہم فوراً اس کی غلطیاں پکڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں، جس سے بچہ مایوس ہو کر زبان سیکھنا چھوڑ دیتا ہے۔
2. خوف ختم کریں
- بچے سے یہ خوف نکالنا ضروری ہے کہ اس کی باتوں کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد بچہ بے خوفی میں بولے گا اور سیکھے گا۔
پاکستانیوں سے انگلش میں بات کرنا مشکل ہوتا ہے، جبکہ انگریزوں سے بات کرنا آسان ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے اندر لوگوں کو جانچنے کی تمنا اُن کو سمجھنے کی تمنا پر غالب ہوتی ہے۔ وہاں، لوگ باتوں کی غرض سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور الفاظ کے گرائمر پر زیادہ دھیان نہیں دیتے۔
تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
by lcfpk.org | Sep 19, 2024 | Uncategorized
بچوں کو لکھنا کیسے سکھائے؟؟
زبان سیکھنے کے چار ذرائع میں سے ایک ذریعہ لکھنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر بچوں کو بہت کم عمری میں پنسل تھما دی جاتی ہے اور فوراً کہا جاتا ہے کہ A, B, C لکھو۔ اس پر بھی ظلم یہ ہوتا ہے کہ جب بچہ کوئی چھوٹی سی غلطی کرتا ہے، تو اُسے ڈانٹا جاتا ہے یا بعض اداروں میں مارا بھی جاتا ہے۔ یہ بچے کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتا ہے اور وہ لکھائی سے بیزار ہو جاتا ہے۔
بچوں کو لکھائی سے بیزار نہ کریں
بچوں کی نفسیات کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز کو نمایاں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ کاغذ کا رنگ اکثر سلیٹی (gray) ہوتا ہے، اور پنسل کا نشان بھی قریب قریب اسی رنگ کا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بچے کو اس کی لکھائی واضح نظر نہیں آتی۔ جب بچہ زور لگا کر لکھتا ہے تو اکثر پنسل کا سکہ ٹوٹ جاتا ہے، جس پر پھر اُسے ڈانٹ پڑتی ہے۔
مزید یہ کہ بچوں کو اکثر اس بات پر بھی ڈانٹ پڑتی ہے کہ الفاظ کو لائنوں کے اندر کیوں نہیں لکھا۔ صفحے پر لکیریں کھینچنا، کتابوں پر تصویریں بنانا، یہ سب ایسے کام ہیں جو دراصل بچوں کے لکھائی سیکھنے کے عمل کا حصہ ہیں۔ ہمیں بچوں کو ایسے کاموں پر نہیں ڈانٹنا چاہئے بلکہ اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
لکھائی کے مراحل
بچوں کو لکھائی سکھانے کے مختلف مراحل ہیں۔ ہر بچہ ان مراحل سے گزرتا ہے اور ہمیں اسے سمجھداری سے سکھانا چاہئے:
Uncontrolled Random Scribbling
پہلا مرحلہ یہ ہے کہ بچے بے ترتیب لکیریں کھینچتے ہیں جن کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی۔ یہ لکیریں بے معنی معلوم ہو سکتی ہیں لیکن یہ بچے کے لکھنے کے عمل کی ابتدا ہوتی ہے۔
Controlled Direction
دوسرے مرحلے میں بچہ مخصوص سمت میں لکیریں کھینچنا شروع کرتا ہے، مثلاً اوپر یا نیچے کی طرف۔ یہ ایک بڑا قدم ہے اور اسے کنٹرولڈ ڈائریکشن کہا جاتا ہے۔
Letter-like Forms
تیسرے درجے میں بچے حروف تہجی جیسے نشانات بنانے لگتے ہیں۔ یہ شکلیں بظاہر بے معنی ہو سکتی ہیں لیکن یہ لکھائی کی اگلی منزل کی طرف ایک اور قدم ہوتا ہے۔
Pictures or Shapes not Identified
چوتھے درجے میں بچہ ایسی تصویریں بنانے لگتا ہے جن کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
Free Writing
آخر میں، بچہ کھل کر لکھائی کرنا سیکھ جاتا ہے جسے فری رائٹنگ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ صلاحیت سات سال کی عمر کے بعد پروان چڑھتی ہے۔
لکھائی میں اصل کیا ہے؟
ہمارے معاشرے میں تحریر کی اصل اہمیت مواد اور خیالات سے ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں رموز اوقاف، خوشخطی، اور سپیلنگ پر اتنا زور دیا جاتا ہے کہ بچے لکھنے سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ ان کی سوچ کو دبانے کے بجائے ہمیں انہیں آزادانہ لکھنے دینا چاہئے تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔
طلبہ کو لکھنے کی آزادی دیں
بچوں کو لکھائی سکھانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں آزادانہ طور پر لکھنے دیا جائے۔ جب وہ لکھ لیں، تو ان سے کہیں کہ اپنے پسندیدہ جملوں کو خط کشیدہ کریں۔ اس عمل سے بچوں میں بامعنی الفاظ کو پسند کرنے اور غور کرنے کی عادت پیدا ہوگی۔
ہمیں بچوں کو وہ چیزیں سکھانی چاہئیں جو ان کے مستقبل میں کام آئیں، جیسے کالم لکھنا، رپورٹ لکھنا، اور تبصرہ لکھنا۔ یہ سب ان کے لئے نہ صرف تعلیمی ترقی کا باعث ہوں گی بلکہ عملی زندگی میں بھی مفید ثابت ہوں گی۔
تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
by lcfpk.org | Sep 19, 2024 | Uncategorized
والدین اور اساتذہ کو آج کل جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ طلبہ اور بچے پڑھتے نہیں ہیں۔ انہیں لاکھ مرتبہ سمجھایا جائے، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اسی لیے آج ہم اس موضوع پر چند گزارشات پیش کریں گے جن پر اگر عمل کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔
لائبریریوں کا فروغ دیں
سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے گھر میں اور اسکول، کالج اور مدارس میں لائبریریوں کو فروغ دیں۔ آج سے چند سو سال پہلے تک جب مسلمان عروج پر تھے، تو مسلمانوں کے گھروں میں دو جگہیں مختص ہوتی تھیں: ایک مسجد کے لیے، جہاں گھر والے اپنی نمازیں اور ذکر و اذکار کرتے، اور ایک مکتبہ یعنی لائبریری کے لیے، جہاں ہر گھر والے اپنی استطاعت کے مطابق کتابیں رکھتے اور انہیں پڑھتے تھے۔ جب سے مسلمانوں کے گھروں سے یہ دو چیزیں نکل گئیں، اسی دن سے مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا۔
اس لائبریری میں کہانیوں، سوانح حیات، جغرافیہ، شاعری، لغات اور مختلف موضوعات کی کتابیں ہونی چاہئیں۔
نوٹ بُکس کا استعمال
دوسرا کام یہ کیا جائے کہ بچوں سے کہا جائے کہ وہ چند قسم کی نوٹ بکس بنائیں جو زندگی بھر کے لیے ہوں۔ ایک ختم ہو جائے تو دوسرا نوٹ بک بنایا جائے جس پر جلد دوم، پھر جلد سوم، اور یہ زندگی بھر چلتا رہے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں بچوں سے الگ الگ کاپیاں بنوائی جاتی ہیں، ہر موضوع کے لیے، اور وہ صرف ایک سال کے لیے ہوتی ہیں۔ جیسے ہی سال ختم ہوتا ہے، وہ کاپیاں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ لیکن جو کاپیاں آپ بنوائیں گے، وہ زندگی بھر چلتی رہیں گی۔
- ریڈنگ لوگ (Reading Log):
پہلی نوٹ بک ریڈنگ لوگ ہونا چاہیے۔ اس میں بالترتیب کتاب کا نام، مصنف کا نام، مطالعہ شروع کرنے کی تاریخ، اور پسندیدہ جملے درج کیے جائیں۔ اس میں ان باتوں کو لکھنا ہو گا جنہوں نے آپ کو متاثر کیا۔
- بیاض (Anthology):
دوسری نوٹ بک بیاض کہلائے گی۔ اس میں وہ عبارات، نظمیں، اشعار، اور اقوال لکھیں جو مختلف کتابوں سے آپ کو پسند آئیں۔ اس میں صرف عبارت اور اس کا حوالہ درج کرنا ہو گا۔
- ورڈ پاور نوٹ بک (Word Power Note Book):
تیسری نوٹ بک ورڈ پاور نوٹ بک ہو گی، جس میں آپ وہ الفاظ درج کریں گے جن کا معنی آپ کو تین دفعہ کے مطالعے کے باوجود سمجھ نہ آئے۔ اس کے ساتھ اس کے معنی، استعمال کے طریقے، اور اس کے خاندان کے دیگر الفاظ بھی لکھیں۔
مطالعہ کا شوق پیدا کریں
جب آپ نے لائبریری بنائی، مطالعہ شروع کیا، اور تین قسم کی کاپیاں تیار کر لیں، تو یہ کام کریں کہ جو آپ نے پڑھا ہے، وہ بچوں کے ساتھ شئیر کریں۔ انہیں بتائیں کہ آپ کی پسندیدہ کتابیں کون سی ہیں اور آپ کس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ جب تک بچوں کو معلوم نہ ہو کہ ان کے والدین یا اساتذہ کی پسندیدہ کتابیں کون سی ہیں، وہ پڑھنے میں دلچسپی نہیں لیں گے۔
تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.