بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 4) بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 4) بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ

بچوں کو اپنی مادری زبان میں سوال کرنا، اپنا مسئلہ بیان کرنا، یا کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کریں، تب انہیں انگریزی یا عربی سکھانی شروع کی جائے۔ اس تحریر میں ہم بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ سیکھیں گے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبان سکھانے کی ابتداء لکھنے اور پڑھنے سے نہ کی جائے بلکہ پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ویڈیوز دکھائیں اور آڈیوز سنائیں۔

بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ

جب بچے اپنی مادری زبان میں سوالات کرنا، اپنا مسئلہ بیان کرنا، یا کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کریں، تب انہیں انگریزی یا عربی سکھانے کا آغاز کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبان سکھانے کی ابتداء لکھنے اور پڑھنے سے نہ کی جائے بلکہ پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ویڈیوز دکھائیں اور آڈیوز سنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے دوسری زبان میں بات چیت شروع کریں۔

بچوں کو انگریزی سکھانے کے دوران ویڈیوز کا انتخاب

ایک اہم بات جو لازمی ہے کہ جب آپ بچوں کو انگریزی سکھانے کے لیے ویڈیوز دکھائیں گے، تو اس میں مغربی تہذیب بھی جھلک سکتی ہے۔ اس لیے ویڈیوز کا انتخاب بڑی احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔ ایک عام سوال یہ ہوتا ہے کہ انگریزی سکھانے کے لیے کس لہجے کا انتخاب کیا جائے: برٹش، امریکن یا اسٹریلین؟ یاد رکھیں کہ پوری دنیا میں پاکستانی اور انڈین لہجہ معیار تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ یہ لہجے سب کے لیے سمجھنے میں آسان ہوتے ہیں۔

زبان سیکھنے کے لیے سننے کا طریقہ

زبان سیکھنے کے چار ستونوں میں سے سننے والے ستون کے لیے چند اقدامات کیے جا سکتے ہیں:

  1. آڈیو بینک کا قیام: اپنے پاس ایک آڈیو بینک جمع کریں جو بچوں کی دلچسپی کے مطابق ہو۔ اس میں کہانیاں، خبریں، میچ کمنٹری (جو پاکستانی یا انڈین نے کی ہو)، گفتگو پر مبنی پروگرامز وغیرہ شامل کریں۔
  2. ویڈیوز یا آڈیوز کو سنانا: ویڈیو یا آڈیو پہلے خود سنیں، پھر بچوں کو دو یا تین مرتبہ سنائیں۔
  3. سننے کا ٹاسک دینا: بچوں کو سننے کا ٹاسک دیں۔ مثلاً، اگر آپ کہانی دکھا رہے ہیں، تو پہلی بار یہ ٹاسک دیں کہ کہانی ختم ہونے کے بعد وہ بتائیں کہ اس کہانی میں کتنے کردار تھے۔ دوسری بار یہ ٹاسک دیں کہ کرداروں نے کیا کیا۔ تیسری بار یہ ٹاسک دیں کہ کرداروں نے کیا کہا۔

بچوں کو انگریزی سکھانے کا بہترین طریقہ

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بہتر بولے، تو اُسے بہتر سنائیں۔ عام طور پر کارٹونز میں معیاری زبان استعمال نہیں ہوتی، اس لیے کارٹون کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر کریں۔

انگریزی یا عربی سکھانے کے لیے کون سی ڈکشنری استعمال کی جائے؟

ڈکشنری کے انتخاب کے حوالے سے مختلف قسم کی ڈکشنریاں موجود ہوتی ہیں۔ کچھ لکھاریوں کے لیے، کچھ ریسرچ کرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں۔ اس لیے ایلمنٹری یا بیسک لرنر کی ڈکشنری کا استعمال کریں۔

بچوں کو زبان سکھانے کی سرگرمی

ایک سرگرمی یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ جو زبان سکھانی ہو اس کا ایک پیراگراف لے کر اس میں سے بیس الفاظ خط کشیدہ کریں۔ پھر بچوں سے کہیں کہ میں پیراگراف تین مرتبہ پڑھوں گا: پہلی دفعہ پورا، دوسری دفعہ خط کشیدہ الفاظ حزف کروں گا، تیسری دفعہ حزف شدہ الفاظ پر رکھوں گا۔ آپ نے بتانا ہے کہ کون سے الفاظ حزف ہوئے ہیں۔ اس طرح کرنے سے بچوں کا سننے کا فن بہت مضبوط ہو جائے گا۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کا تیسرا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 4) بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ

بچوں کو عربی یا انگلش سکھانے کے اصول – ( بچوں کی تعلیم و تربیت قسط نمبر3)

اس تحریر میں ہم بچوں کو عربی یا انگلش سکھانے کے اصولوں کے بارے میں بات کرینگے۔

اصطلاحات کی وضاحت

  • L1: بچے کی پہلی زبان، جو وہ قدرتی طور پر سیکھتا ہے۔
  • L2: دوسری زبان، جو والدین بچے کو سکھانا چاہتے ہیں۔
  • Oracy: زبان کے سننے اور بولنے کی مہارتیں۔
  • Literacy: زبان کے پڑھنے اور لکھنے کی مہارتیں۔
  • Input: سننے اور پڑھنے کے ذریعے زبان سے متعلق مواد جو دماغ میں آتا ہے۔
  • Output: بولنے اور لکھنے کے ذریعے زبان کا اظہار۔

بچوں کو زبان سکھانے کے اصول

بچوں کو کوئی بھی زبان سکھانے کے لیے سب سے پہلے یہ جانچنا ضروری ہے کہ آیا بچے نے L1 میں Oracy کا مطلوبہ لیول حاصل کر لیا ہے یا نہیں۔

لیول سے مراد :Oracy

  1. بچہ اپنے مسائل بیان کر سکتا ہے۔
  2. بچہ “کون”، “کب”، “کیا”، “کیسے”، “کہاں”، “کیوں” جیسے سوالات کر سکتا ہے۔
  3. بچہ کوئی واقعہ نقل کر سکتا ہے۔

کے بعد کا مرحلہ L1

اگر بچے نے یہ خاص لیول حاصل کر لیا ہے تو اب ہمارے پاس انتخاب کرنے کے لیے دو راستے ہیں:
پہلا راستہ:

یعنی لکھنے کی مہارت پر توجہ دینا۔ اس کا ایک خاص طریقہ کار ہے جو آئندہ تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔

دوسرا راستہ:

یہ ہے کہ ہم بولنے کی مہارت پر توجہ دیں۔ اس میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ دوسری زبان کی ان پُٹ کی مقدار زیادہ کرنی ہے تاکہ نتیجہ خود بخود بہتر ہو سکے۔ مگر ان پُٹ کے حوالے سے تین اہم نکات ہیں:

    • پہلا:
    • ان پُٹ مکمل طور پر صحیح اور ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہو۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کو انگریزی سکھانے کے لیے جو اسکول کا نصاب ہوتا ہے، اکثر اس میں غلطیاں ہوتی ہیں۔ استاد بھی خود انگریزی صحیح نہیں بول پاتے، جس کا قصور ان کا نہیں ہے۔ اکثر پرائیوٹ اداروں میں میٹرک یا انٹر پاس لڑکے اور لڑکیاں 2 ہزار سے 7 ہزار روپے تنخواہ پر کام کرتے ہیں اور انہیں صرف انگریزی میں بات کرنے کی پابندی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ غلط انگریزی بولتے ہیں اور بچوں کو غلط ان پُٹ ملتا ہے، جس سے بچوں کا نتیجہ بھی غلط ہو جاتا ہے۔
    • دوسرا:
    • ان پُٹ خالص ہو، یعنی اس میں دوسری زبان کی آمیزش نہ ہو۔
    • تیسرا:
    • ان پُٹ ادبی اعتبار سے بلند ہو۔ مؤخر الذکر دو چیزیں اضافی ہیں لیکن ان پُٹ کا صحیح ہونا لازمی ہے۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کا پہلا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

 

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 4) بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 2) – بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 2)

بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟

آج ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کو ڈھائی سال کی عمر میں اسکول میں داخل کرادیا جاتا ہے اور بچے کو انگلش سکھانا شروع کر دیا جاتا ہے حالانکہ اس عمر میں بچہ نے اپنی مادری زبان بھی نہیں سیکھی ہوتی اور دوسرا ظلم ہم یہ کرتے ہیں کہ انگلش میڈیم اسکولوں میں بچے کو انگلش سکھانے کی خاطر ان کے دوسرے مضامین اسلامیات، سائنس، معاشرتی وغیرہ بھی انگلش میں پڑھاتے ہیں جس کی وجہ بچے کو نہ انگلش آتی ہے اور نہ ہی دوسرے مضامین۔

ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو (150) گھنٹے درکار ہوتے ہیں لیکن ہمارے تعلیمی نظام پر ایسے انگلش کا بھوت سوار ہے کہ نرسری سے لے کر میٹرک تک ہم تقریباً 1200 گھنٹے انگریزی کو اور دوسرے جو انگلش میں پڑھائے جاتے ہیں وہ شامل کر لیے جائے تو تقریباً 7000 ہزار گھنٹے انگلش زبان کو دیتے ہیں اور یہی حال مدارس کے طلبہ کا ہے وہ عربی کو تقریباً اتنا ہی وقت دیتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے بچوں کو انگریزی اور عربی نہیں آتی۔

مادری زبان نہ سیکھنے کا نقصان

اس کی وجہ صرف و صرف یہ ہے کہ بچہ نے اپنی مادری زبان نہیں سیکھی ہوتی اور ہم اُسے دوسری زبان لکھائی اور پڑھائی شروع کرادیتے ہیں جس میں بچہ کے سامنے ایسے الفاظ آتے ہیں جس کا بچہ نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا اور نہ سنے ہوتے ہیں اور نہ دیکھے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ رٹہ لگا کر ABC تو سیکھ جاتا ہے لیکن پڑھنے لکھنے سے بیزار ہوتا ہے۔

اس کی مثال ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کی تقریباً 9 کروڑ آبادی لکھنا پڑھنا جانتی ہے لیکن لکھتی پڑھتی نہیں۔ آخری مرتبہ قلم اُس وقت اُٹھایا تھا جب امتحان کا آخری پرچہ دیا تھا۔ اس کے بعد کسی موضوع پر کچھ لکھنے کی نوبت نہیں آتی اور آخری کتاب بھی وہی آخری کورس میں شامل ٹیکسٹ بک ہی تھی۔ اس کے بعد کوئی کتاب خریدنے کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوتی۔

بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟

لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم بچوں کو دوسری زبان سکھانے کے لیے بھی وہی طریقہ اختیار کریں جس طریقہ سے بچہ نے اپنی مادری زبان سیکھی تھی۔

بچہ کی زبان سیکھنے کے مراحل

اب سوال یہ ہے کہ بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟ تو اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں بچہ کے پیدائش سے لے کر اس کے صحیح باتیں شروع کرنے تک کے درجات کا جائزہ لینا ہو گا۔

پہلا درجہ: رونا

غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوا کہ بچہ کے زبان سیکھنے کا سب سے پہلا درجہ اس کا رونا ہے۔ وہ رونے کے ذریعے اپنی بات اپنی ماں کو سمجھاتا ہے۔ چھ ہفتے کے بچے کے رونے کی مختلف نوعیتیں ہوتیں ہیں۔ اس کی والدہ سمجھ جاتی ہے کہ اسے کیا مسئلہ ہے بھوک لگی ہے، پیٹ میں درد ہے، گرمی لگ رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے ایک سال کی عمر تک اگر بچہ ایک منٹ روتا رہے اور اُس کے رونے پر والدہ اُس کی طرف توجہ نہ دے اور اس طرح مسلسل ہوتا رہے تو اس بچہ کا دماغ متاثر ہوتا ہے اور اُس میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ وہ رونے کے ذریعہ اپنی بات سمجھانا چاہتا ہے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

دوسرا درجہ: آوازیں نکالنا

دوسرے درجے میں بچہ رونے کے ساتھ کچھ اور آوازیں بھی نکالنا شروع کرتا ہے۔ جس میں وہ خوشی ظاہر کرتا ہے یا ویسے ہی آوازیں نکال رہے ہیں، اس لیے وہ بھی آوازیں نکالتا ہے جس پر ہم چار کام کرتے ہیں:

  1. ہم اس کی آوازوں کی طرف توجہ دیتے ہیں
  2. ہم خوش ہوتے ہیں
  3. ہم اُس کی طرف متوجہ ہو کر اُس کو دہراتے ہیں
  4. اور اُس کی آوازوں کو ہم کوئی خاص معنی دے دیتے ہیں کہ یہ مجھے پکار رہا ہے۔ ماں کہتی ہے کہ مجھے آواز دے رہا ہے۔

ان کاموں کے نتیجے میں بچہ مزید آوازیں نکالتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنی آوازوں کو دہرانا شروع کر دیتا ہے۔

تیسرا درجہ: نام بنانا

تیسرے درجے میں بچہ جب ٹھوس کھانوں پر آتا ہے تو وہ چیزوں کے ادھورے نام اور اپنے الفاظ بنا کر باتیں کرتا ہے جیسے پانی کو مم، دودھ کو دُو دُو وغیرہ وغیرہ۔

اس وقت ہم بچہ کے الفاظ پر دھیان نہیں دیتے بلکہ ان کی غایت پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ مم بولتا ہے تو ہم پانی دے دیتے ہیں۔ اگر اس درجہ میں ہم بچوں کو غلطیاں پکڑنا شروع کریں اور ان سے کہیں کہ نہیں پانی بولو پھر پانی دونگی تو بچہ زندگی بھر صحیح بولنا نہ سیکھ پاتا۔ لیکن چونکہ ہم بچہ کی غلطیاں نہیں پکڑتے، اس وجہ سے وہ صحیح بولنا سیکھ جاتے ہیں۔

چوتھا اور آخری درجہ: صحیح بولنا

چوتھے اور آخری درجہ میں بچہ صحیح بولنا سیکھ جاتا ہے۔ اور اس کی علامت تین چیزیں ہیں:

  1. وہ اپنی مادری زبان میں اپنا مسئلہ بیان کر سکے
  2. وہ کون، کب، کیا، کیسے، کہاں، کیوں سے سوال کر سکتا ہے یا نہیں
  3. وہ کوئی واقعہ نقل کر سکتا ہے یا نہیں
وضاحت: زبان سیکھنے سے متعلق جتنی معلومات یہاں پیش کی گئی اور جو آئندہ ذکر کا جائے گی یہ سلیمان آصف صدیقی صاحب جو ERDC کے بانی ہیں، ان کی تحقیق ہے۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کا پہلا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 4) بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 1) – ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داریاں

جمیل میرے پاس آیا اور کہنے لگا، “مفتی صاحب، بچے کے کان میں آذان دینی ہے۔” میں نے کہا کہ خود دے دو تو جواب دیا، “مجھے نہیں آتی۔” اسی طرح اکثر لوگ مجھ سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے سوال کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے مناسب لگا کہ پہلے بچوں کی تعلیم و تربیت پر قسط وار تحریریں لکھوں۔ زیر نظر تحریر اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ امید ہے پسند آئے گی۔ اپنے قیمتی مشوروں سے آگاہ کرتے رہیں۔

نومولود بچہ کے کان میں آذان:

بچوں کی تعلیم و تربیت میں سب سے پہے پیدائش کے وقت انکے کان میں آذان دینا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے نواسے حسن بن علی کے کان میں آذان پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کی ولادت ہوئی۔

ایک دوسری حدیث جو “کنز العمال” میں مسند ابویعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے، اس میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ اُم الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا (جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے)۔

ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نومولود بچہ کا پہلا حق گھر والوں پر یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے کانوں اور کانوں کے ذریعہ اس کے دل و دماغ کو اللہ کے نام، اس کی توحید، اور ایمان و نماز کی دعوت کی پکار سے آشنا کریں۔

تخیک اور دعائے برکت

اس کے علاوہ،رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا، اس کا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نو مولود بچے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے جاتے تاکہ آپ ﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائیں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو۔ اس عمل کو تخیک کہتے ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے تو آپ ﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے۔

کتب حدیث میں “تخیک” کے بہت سے واقعات مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھرانے میں بچہ پیدا ہو تو چاہیئے کہ کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اسے لے جائیں تاکہ وہ اس کے لیے خیر و برکت کی دعائیں کریں اور “تخیک” بھی کرائیں۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے۔

عقیقہ کرنا

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی خوشی میں ساتویں دن لڑکے کی پیدائش پر دو (2) بکرے اور لڑکی کی پیدائش پر ایک (1) بکری یا ایک (1) بکرے کی قربانی کرنا عقیقہ کہلاتا ہے۔ البتہ یہ عقیقہ فرض و واجب کی طرح لازمی نہیں بلکہ استحباب کے درجے میں ہے۔

اور لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ میں دو (2) بکریوں کی قربانی کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے، ہاں اگر وسعت ہو تو دو (2) قربانیاں بہتر ہیں، ورنہ ایک کافی ہے۔

چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عقیقہ میں ایک ایک مینڈھے کی قربانی کی ہے۔

سر منڈوانا

اگر وسعت ہو تو ساتویں دن بچے کے بالوں کو منڈوا کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا بھی مستحب ہے۔

حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کر دو اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی کا صدقہ کر دو۔ ہم نے وزن کیا تو وہ ایک درہم کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے۔

سرپر زعفران لگانا

بچے کا سر منڈوانے کے بعد اس کے سر پر زعفران لگانا بھی حدیث سے ثابت ہے۔

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہمارا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا۔ پھر جب اسلام آیا تو (رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق) ہمارا طریقہ یہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے۔

اچھا نام رکھنا

بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے۔ اور یہ بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کا حصہ ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

“حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے نام سے پکارے جاؤ گے (یعنی پکارا جائے گا فلاں بن فلاں) لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو۔”

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتھ ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے۔ لیکن بعض احادیث سے آپ ﷺ کا عمل بعض بچوں کا نام پہلے ہی دن رکھنا معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا پیدائش کے دن یا ساتویں دن سے پہلے بچے کا نام رکھنے میں مضائقہ نہیں۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔

Pin It on Pinterest

Open chat
1
Scan the code
Hello
Can we help you?