تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
والدین اور اساتذہ کو آج کل جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ طلبہ اور بچے پڑھتے نہیں ہیں۔ انہیں لاکھ مرتبہ سمجھایا جائے، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اسی لیے آج ہم اس موضوع پر چند گزارشات پیش کریں گے جن پر اگر عمل کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔
سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے گھر میں اور اسکول، کالج اور مدارس میں لائبریریوں کو فروغ دیں۔ آج سے چند سو سال پہلے تک جب مسلمان عروج پر تھے، تو مسلمانوں کے گھروں میں دو جگہیں مختص ہوتی تھیں: ایک مسجد کے لیے، جہاں گھر والے اپنی نمازیں اور ذکر و اذکار کرتے، اور ایک مکتبہ یعنی لائبریری کے لیے، جہاں ہر گھر والے اپنی استطاعت کے مطابق کتابیں رکھتے اور انہیں پڑھتے تھے۔ جب سے مسلمانوں کے گھروں سے یہ دو چیزیں نکل گئیں، اسی دن سے مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا۔
اس لائبریری میں کہانیوں، سوانح حیات، جغرافیہ، شاعری، لغات اور مختلف موضوعات کی کتابیں ہونی چاہئیں۔
دوسرا کام یہ کیا جائے کہ بچوں سے کہا جائے کہ وہ چند قسم کی نوٹ بکس بنائیں جو زندگی بھر کے لیے ہوں۔ ایک ختم ہو جائے تو دوسرا نوٹ بک بنایا جائے جس پر جلد دوم، پھر جلد سوم، اور یہ زندگی بھر چلتا رہے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں بچوں سے الگ الگ کاپیاں بنوائی جاتی ہیں، ہر موضوع کے لیے، اور وہ صرف ایک سال کے لیے ہوتی ہیں۔ جیسے ہی سال ختم ہوتا ہے، وہ کاپیاں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ لیکن جو کاپیاں آپ بنوائیں گے، وہ زندگی بھر چلتی رہیں گی۔
جب آپ نے لائبریری بنائی، مطالعہ شروع کیا، اور تین قسم کی کاپیاں تیار کر لیں، تو یہ کام کریں کہ جو آپ نے پڑھا ہے، وہ بچوں کے ساتھ شئیر کریں۔ انہیں بتائیں کہ آپ کی پسندیدہ کتابیں کون سی ہیں اور آپ کس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ جب تک بچوں کو معلوم نہ ہو کہ ان کے والدین یا اساتذہ کی پسندیدہ کتابیں کون سی ہیں، وہ پڑھنے میں دلچسپی نہیں لیں گے۔
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
زبان سیکھنے کا ایک اہم ستون پڑھنا ہے کیونکہ جو انسان جتنا زیادہ پڑھے گا، وہ اُتنا زیادہ اُس زبان کو سیکھے گا۔ لیکن بچوں کو پڑھنا سکھانے میں احتیاط ضروری ہے۔ اگر ابتدا حروف تہجی سے کی جائے، تو بچے پڑھنے سے بیزار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسی چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے جو انہیں بے مقصد لگتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کو زبان سکھانے کی ابتدا حروف تہجی سے کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اکثر بچے اپنی تعلیمی زندگی کے بعد کتابیں پڑھنے سے دور ہو جاتے ہیں۔ پڑھنے کا یہ روایتی طریقہ بچوں کو بور کر دیتا ہے۔ حروف تہجی سے شروع کرنے کے بجائے، ہمیں ایک مؤثر طریقہ اپنانا چاہیے تاکہ بچے کا پڑھائی میں شوق بڑھے۔
کسی بھی زبان کو سکھانے کے لیے ہمیں کل سے جز کی طرف آنا ہوگا۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچے کو اپنے ساتھ لائبریری لے جائیں اور وہاں کتابیں دکھائیں۔ پھر کوئی دلچسپ کہانیوں والی کتاب منتخب کریں اور اسے بچے کے سامنے رکھیں۔ کتاب میں الفاظ پر ہاتھ رکھتے جائیں تاکہ بچہ سیکھے کہ پیراگراف کیسے ختم ہوتا ہے، اور صفحہ پلٹنے کا عمل کیسے ہوتا ہے۔
جب آپ خود کتاب پڑھتے ہیں، تو بچہ آپ کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 2 سے 7 سال کی عمر کے بچے دوسروں کی نقل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر آپ خود پڑھیں گے، تو بچہ بھی کتاب اُٹھا کر پڑھنے کی کوشش کرے گا۔ اس عمل سے بچے کے اندر پڑھنے کی دلچسپی بڑھتی ہے۔
بچے کو کتابوں سے متعارف کروانے کے بعد، آپ فلش کارڈز استعمال کر سکتے ہیں۔ چار فلش کارڈز لیں: دو پر بچے کا نام اور دو پر اس کے بہن یا بھائی کا نام لکھیں۔ پھر بچے سے کہیں کہ وہ اپنے ابو سے پوچھے کہ اس پر کیا لکھا ہے۔ جب اس کے والدین بھی اسے یہی بتائیں گے کہ یہ اس کا نام ہے، تو اسے یقین آ جائے گا۔
فلش کارڈز سے چند الفاظ سکھانے کے بعد، آپ ارد گرد کی اشیاء پر نام لکھ کر لگا سکتے ہیں۔ جیسے دروازہ، میز، یا گلاس۔ بچے کو دکھائیں کہ کس چیز کا کیا نام ہے، اور اسے الفاظ کی پہچان کروائیں۔ جب وہ تقریباً چالیس الفاظ سیکھ لے، تو الفاظ کی مدد سے اسے حروف تک پہنچائیں۔
اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ بورڈ یا کاپی پر بچے کا نام مثلاً ” افضل خان ” لکھیں اور اس کے نیچے دوسرا نام جیسے ” علی ” لکھیں۔ اب بچے سے پوچھیں کہ ان دونوں میں سے کون سا نام بڑا ہے؟ وہ بتائے گا کہ “افضل خان” بڑا ہے۔ پھر اس سے پوچھیں کہ کیوں بڑا ہے؟ وہ جواب دے گا کہ اس میں زیادہ حروف ہیں۔ تب آپ اسے بتائیں کہ یہ حروف تہجی کہلاتے ہیں۔ پھر بچے سے پوچھیں کہ دونوں ناموں میں کون سے حروف ایک جیسے ہیں۔ اس طرح بچہ الفاظ پر غور کرتے ہوئے حروف کی پہچان سیکھنے لگے گا۔
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
اس تحریرمیں ہم بچوں کو پڑھانےکا صحیح طریقہ سیکھیِنگے۔ کیونکہ زبان سیکھنے کا ایک اہم ستون پڑھنا ہے۔ جتنا زیادہ کوئی شخص پڑھے گا، اُتنا زیادہ وہ زبان سیکھے گا۔ تاہم، بچوں کو پڑھنا سکھانے کے لیے زبان کی حروف تہجی سے آغاز نہ کریں ورنہ بچے بیزار ہو سکتے ہیں۔
زبان سیکھنے کا ایک ستون پڑھنا ہے کیونکہ جتنا زیادہ انسان پڑھے گا، اُتنا زیادہ وہ زبان سیکھے گا۔ لیکن اس میں خیال رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کو پڑھنا سکھانے کے لیے زبان کی حروف تہجی سے ابتداء نہ کی جائے ورنہ بچے پڑھنے سے بیزار ہو سکتے ہیں، کیونکہ بچوں کی نفسیات میں یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے جو ان کو بے مقصد لگتی ہیں۔ اس تحریر میں ہم بچوں کو پڑھنے کے مؤثر طریقے سیکھیں گے تاکہ ان کی زبان سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
ہمارے معاشرے میں چونکہ بچوں کو زبان سکھانے کے لیے ابتداء حروف تہجی سے ہوتی ہے، اس وجہ سے اکثر بچے اپنی تعلیمی زندگی کے بعد کتابیں نہیں پڑھتے۔ پڑھنے کا سفر ہمارے معاشرے میں کچھ یوں ہوتا ہے: پہلے حروف تہجی، پھر الفاظ، اس کے بعد جملے، پھر پیراگراف، پھر مضمون، اور آخر کار کتاب اور لائبریری۔ یہ سفر بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص تالاب میں تیرنا سیکھنا چاہے اور ایک مرتبہ جا کر ہاتھ اس میں ڈالے، پھر دوسرا ہاتھ، پھر پاؤں، پھر دوسرا پاؤں، پھر سر، اور آخر میں پورا بدن، جو کہ نہایت تکلیف دہ اور وقت ضائع کرنے والا عمل ہے۔
کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے کل سے جز کی طرف آنا ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچہ کو اپنے ساتھ لے کر لائبریری جائیں اور وہاں اسے کتابیں دکھائیں۔ پھر کوئی کہانیوں والی کتاب منتخب کر کے، کتاب اس کے سامنے رکھیں اور اس میں الفاظ پر ہاتھ رکھتے جائیں۔ اس طرح بچہ نوٹ کرے گا کہ پیراگراف ختم ہوا، دوسرا شروع ہوا، پھر صفحہ ختم ہو کر دوسرا صفحہ پلٹا گیا۔ اس سے بچے کے اندر ایک تڑپ پیدا ہوگی کہ جو والدین پڑھ رہے ہیں، وہ بھی ان کی طرح پڑھنا چاہے گا۔ کیونکہ دو سے سات سال کا بچہ سب سے زیادہ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب آپ پڑھیں گے تو وہ اپنے آپ کو روک نہیں پائے گا اور کتاب لے کر خود پڑھنے کی کوشش کرے گا۔
جب آپ خود نہیں پڑھتے اور بچے کو کہتے ہیں کہ پڑھو، تو بچے کو خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی کسی کو کہے کہ پڑھو۔ جب لائبریری چند مرتبہ بچے کو لے جائیں، اس کے بعد چار فلیش کارڈ لیں، دو پر بچے کا اور دو پر اس کے بھائی یا بہن کا نام لکھیں۔ پھر اسے کہیں کہ یہ تمھارا نام ہے لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد اسے کارڈ دیں اور کہیں کہ اپنے ابو سے جا کر پوچھو کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے۔
جب ابو بھی اُسے یہی بتائیں گے کہ اس پر تمھارا نام لکھا ہے تو اسے یقین آ جائے گا کہ واقعی یہ میرا نام ہے۔ پھر ایک کارڈ جس پر بچہ کا نام لکھا ہوا ہے، اُٹھا کر بچے سے کہیں کہ باقی کارڈوں میں سے اس طرح کا کارڈ تلاش کریں جس پر آپ کا نام لکھا ہے۔ اگر بچہ نے اپنے نام والا کارڈ پہچان کر اُٹھا لیا، تو سمجھیں کہ اسے پڑھنا آ گیا۔ اس طریقے سے آپ ڈیڑھ سال کے بچے کو بھی پڑھنا سکھا سکتے ہیں۔ اس طرح چند مرتبہ مختلف ناموں کے ساتھ کریں تو بچہ چند الفاظ پڑھنے لگے گا۔
پھر اپنے ارد گرد کی چیزوں پر پرچیاں لگا کر ان چیزوں کے نام لکھیں، صرف نام لکھنے ہیں، الفاظ اور صفحات نہیں۔ پھر اسے بتائیں کہ یہ گلاس ہے، یہ دروازہ ہے، یہ میز ہے وغیرہ۔ جب چالیس کے قریب الفاظ ہو جائیں، تب لفظ کی مدد سے حروف تک پہنچ جائیں گے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ بورڈ پر یا کاپی پر بچہ کا نام لکھیں، مثلاً “افضل” اور اس کے نیچے دوسرا نام لکھیں، مثلاً “علی”۔ اب بچہ سے سوال کریں کہ ان دونوں میں بڑا کون سا ہے، وہ بتائے گا۔ پھر پوچھیں کیوں بڑا ہے، وہ جواب دے گا کہ اس میں چھ چیزیں ہیں۔ پھر اُسے بتائیں کہ یہ چھ چیزیں حروف تہجی کہلاتی ہیں۔ اب بتائیں کہ دونوں ناموں میں کون سے حروف ایک جیسے ہیں، اس طرح وہ الفاظ پر غور کر کے حروف تک پہنچ جائے گا۔
اگر آپ اس سلسلے کی اگلی قست یا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
بچوں کو اپنی مادری زبان میں سوال کرنا، اپنا مسئلہ بیان کرنا، یا کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کریں، تب انہیں انگریزی یا عربی سکھانی شروع کی جائے۔ اس تحریر میں ہم بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ سیکھیں گے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبان سکھانے کی ابتداء لکھنے اور پڑھنے سے نہ کی جائے بلکہ پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ویڈیوز دکھائیں اور آڈیوز سنائیں۔
جب بچے اپنی مادری زبان میں سوالات کرنا، اپنا مسئلہ بیان کرنا، یا کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کریں، تب انہیں انگریزی یا عربی سکھانے کا آغاز کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبان سکھانے کی ابتداء لکھنے اور پڑھنے سے نہ کی جائے بلکہ پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ویڈیوز دکھائیں اور آڈیوز سنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے دوسری زبان میں بات چیت شروع کریں۔
ایک اہم بات جو لازمی ہے کہ جب آپ بچوں کو انگریزی سکھانے کے لیے ویڈیوز دکھائیں گے، تو اس میں مغربی تہذیب بھی جھلک سکتی ہے۔ اس لیے ویڈیوز کا انتخاب بڑی احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔ ایک عام سوال یہ ہوتا ہے کہ انگریزی سکھانے کے لیے کس لہجے کا انتخاب کیا جائے: برٹش، امریکن یا اسٹریلین؟ یاد رکھیں کہ پوری دنیا میں پاکستانی اور انڈین لہجہ معیار تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ یہ لہجے سب کے لیے سمجھنے میں آسان ہوتے ہیں۔
زبان سیکھنے کے چار ستونوں میں سے سننے والے ستون کے لیے چند اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بہتر بولے، تو اُسے بہتر سنائیں۔ عام طور پر کارٹونز میں معیاری زبان استعمال نہیں ہوتی، اس لیے کارٹون کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر کریں۔
ڈکشنری کے انتخاب کے حوالے سے مختلف قسم کی ڈکشنریاں موجود ہوتی ہیں۔ کچھ لکھاریوں کے لیے، کچھ ریسرچ کرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں۔ اس لیے ایلمنٹری یا بیسک لرنر کی ڈکشنری کا استعمال کریں۔
ایک سرگرمی یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ جو زبان سکھانی ہو اس کا ایک پیراگراف لے کر اس میں سے بیس الفاظ خط کشیدہ کریں۔ پھر بچوں سے کہیں کہ میں پیراگراف تین مرتبہ پڑھوں گا: پہلی دفعہ پورا، دوسری دفعہ خط کشیدہ الفاظ حزف کروں گا، تیسری دفعہ حزف شدہ الفاظ پر رکھوں گا۔ آپ نے بتانا ہے کہ کون سے الفاظ حزف ہوئے ہیں۔ اس طرح کرنے سے بچوں کا سننے کا فن بہت مضبوط ہو جائے گا۔
اگر آپ اس سلسلے کا تیسرا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
اس تحریر میں ہم بچوں کو عربی یا انگلش سکھانے کے اصولوں کے بارے میں بات کرینگے۔
اصطلاحات کی وضاحت
جمیل میرے پاس آیا اور کہنے لگا، “مفتی صاحب، بچے کے کان میں آذان دینی ہے۔” میں نے کہا کہ خود دے دو تو جواب دیا، “مجھے نہیں آتی۔” اسی طرح اکثر لوگ مجھ سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے سوال کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے مناسب لگا کہ پہلے بچوں کی تعلیم و تربیت پر قسط وار تحریریں لکھوں۔ زیر نظر تحریر اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ امید ہے پسند آئے گی۔ اپنے قیمتی مشوروں سے آگاہ کرتے رہیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت میں سب سے پہے پیدائش کے وقت انکے کان میں آذان دینا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے نواسے حسن بن علی کے کان میں آذان پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کی ولادت ہوئی۔
ایک دوسری حدیث جو “کنز العمال” میں مسند ابویعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے، اس میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ اُم الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا (جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے)۔
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نومولود بچہ کا پہلا حق گھر والوں پر یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے کانوں اور کانوں کے ذریعہ اس کے دل و دماغ کو اللہ کے نام، اس کی توحید، اور ایمان و نماز کی دعوت کی پکار سے آشنا کریں۔
اس کے علاوہ،رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا، اس کا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نو مولود بچے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے جاتے تاکہ آپ ﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائیں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو۔ اس عمل کو تخیک کہتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے تو آپ ﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے۔
کتب حدیث میں “تخیک” کے بہت سے واقعات مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھرانے میں بچہ پیدا ہو تو چاہیئے کہ کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اسے لے جائیں تاکہ وہ اس کے لیے خیر و برکت کی دعائیں کریں اور “تخیک” بھی کرائیں۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی خوشی میں ساتویں دن لڑکے کی پیدائش پر دو (2) بکرے اور لڑکی کی پیدائش پر ایک (1) بکری یا ایک (1) بکرے کی قربانی کرنا عقیقہ کہلاتا ہے۔ البتہ یہ عقیقہ فرض و واجب کی طرح لازمی نہیں بلکہ استحباب کے درجے میں ہے۔
اور لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ میں دو (2) بکریوں کی قربانی کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے، ہاں اگر وسعت ہو تو دو (2) قربانیاں بہتر ہیں، ورنہ ایک کافی ہے۔
چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عقیقہ میں ایک ایک مینڈھے کی قربانی کی ہے۔
اگر وسعت ہو تو ساتویں دن بچے کے بالوں کو منڈوا کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا بھی مستحب ہے۔
حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کر دو اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی کا صدقہ کر دو۔ ہم نے وزن کیا تو وہ ایک درہم کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے۔
بچے کا سر منڈوانے کے بعد اس کے سر پر زعفران لگانا بھی حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہمارا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا۔ پھر جب اسلام آیا تو (رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق) ہمارا طریقہ یہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے۔
بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے۔ اور یہ بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کا حصہ ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
“حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے نام سے پکارے جاؤ گے (یعنی پکارا جائے گا فلاں بن فلاں) لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو۔”
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتھ ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے۔ لیکن بعض احادیث سے آپ ﷺ کا عمل بعض بچوں کا نام پہلے ہی دن رکھنا معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا پیدائش کے دن یا ساتویں دن سے پہلے بچے کا نام رکھنے میں مضائقہ نہیں۔
اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔
کہا جاتا ہے کہ پاگل پن کا طاعون کسی شہر کے ایک نہر میں نازل ہوا تھا، اور جب بھی کوئی اس نہر سے پانی پیتا تھا تو وہ پاگل ہو جاتا تھا۔ پاگل لوگ ایک ایسی زبان بولتے جو عقلمند لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے، اور آئے روز پاگلوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔
بادشاہ سلامت نے اس وباء کا خطرہ اس وقت بھانپ لیا جب طاعون کی بیماری کا پھیلاؤ شاہی محل کی دہلیز پر آپہنچا۔ ایک دن صبح، ملکہ بھی پاگل ہو کر پاگلوں کے ایک گروہ سے مل گئی اور علی الاعلان بادشاہ کے پاگل پن کی شکایت کی۔
: “شاہی دربان چی کہاں تھے؟”
: “بادشاہ سلامت، دربان چی کو جنون کی بیماری ملکہ سے پہلے لگی ہوئی تھی۔”
: “تو فوراً ڈاکٹر کو بلا لو۔”
: “وہ تو عرصہ ہوا جنون کی بیماری کا شکار ہوا ہے۔”
“یہ کیسی آفت ہے؟ کیا شہر میں کوئی اس بلا سے بچا ہے؟”
: “بادشاہ سلامت، میرے اور آپ کے علاوہ پورے شہر میں کوئی نہیں بچا ہے۔”
: “اے میرے مولیٰ، مجھے پاگلوں کی دنیا کی حکمرانی کی آزمائش سے بچا۔”
وزیر: “بادشاہ سلامت! معذرت کے ساتھ، وہ تو پورے مملکت میں یہ افواہ پھیلا چکے ہیں کہ ہم عقل مند ہیں، اور پورے ملک میں صرف دو پاگل ہیں: بادشاہ اور اس کے وزیر۔”
: “یہ تو بکواس کر رہے ہیں۔ نہر جنون سے پانی وہ پیئے ہیں اور طعنے ہمیں دے رہے ہیں۔”
: “بادشاہ سلامت، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے نہر جنون سے پانی پاگل پن سے بچاؤ کے لیے پیا ہے، البتہ صرف دو آدمی، بادشاہ اور اس کا وزیر، جنہوں نے اس نہر سے پانی نہیں پیا، وہ پاگل پن کے شکار ہوگئے ہیں۔”
: “بادشاہ سلامت، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری حیثیت ان کے بھاری اکثریت کے سامنے ریت کے دو ذروں سے زیادہ نہیں ہے، اور پوری دنیا بھی انہیں عقل مند سمجھتی ہے۔”
: “وزیر صاحب، تو مجھے بھی اس نہر جنون سے پلا دو، اس لیے کہ ‘پاگل پن تو یہ ہے کہ کوئی آدمی پاگلوں کی دنیا میں عاقل ہو کر رہے۔'”
یقیناً ایسے وقت میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ارادے اور منصوبے بلند وبالا ہوں اور ان کی رائے باقی دنیا سے مختلف ہو۔ ایسے وقت میں کسی سے متاثر ہوئے بغیر اور نہر جنون سے پانی پیئے بغیر اپنے موقف پر ثابت قدم رہنا، فضل خداوندی ہے۔
کیا کبھی آپ سے کسی نے کہا ہے: “کہ باقی پوری دنیا غلط ہے اور صرف آپ صحیح رائے رکھتے ہیں؟” اس کا مطلب یہ ہے کہ “وہ آپ کو نہر جنون سے پانی پینے کی دعوت دے رہا ہے۔”
سوچیئے! جب آپ اپنے دفتر یا ورکشاپ میں داخل ہوتے ہیں اور آپ کا کوئی ایسا ساتھی جو عادتاً دیر سے آتا ہے اور بہت معمولی منصوبے پر عمل پیرا ہوتا ہے، کیا آپ اس سے متاثر ہو کر اپنے بلند وبالا پرواز چھوڑ دیتے ہیں اور معمولی اور چھوٹے منصوبوں پر اکتفا کرتے ہیں؟
کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کسی غیر متوقع شخص کی زبان پر کلمہ حق جاری کر دیتا ہے، اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی صاحب الرائے کی سوچ کسی نتیجے پر پہنچ جاتی ہے لیکن عام لوگوں کی رسائی اس تک سینکڑوں سال بعد ہوتی ہے، جیسا کہ اٹالین مشہور سائنسدان گلیلیو (1564ء – 1642ء) نے یہ انکشاف کیا کہ زمین کروی (گول شکل) ہے، جس کے نتیجے میں انہیں جیل بھیجا گیا۔ وہ وہیں مر گئے، اور 350 سال بعد ان کی بات تک دوسرے سائنسدانوں کی رسائی ہوئی، معلوم ہوا کہ اس وقت گلیلیو کی بات ٹھیک تھی۔
کیا ذاتی رائے رکھنا ضروری ہے، اور اس پر اصرار کرنا صحیح طرز عمل ہے؟
پرانے زمانے میں ایک مضمون نگار تھا جس کا تجربہ کم تھا، وہ ہمیشہ غیر سنجیدہ آراء قائم کرکے اپنے مضامین سے لوگوں کو پریشان کرتا تھا، یہاں تک کہ انہیں معزول کیا گیا۔ اور واقعی ایک عرصہ بعد پتہ چلا کہ ان کی ساری باتیں بکواس تھیں۔ تو ایسے مضمون نگار کو چاہیے کہ وہ نہر جنون کے پانی پیئے۔
اسی طرح ہٹلر کی کم عقلی لے لو جب اس نے اپنے وقت کے عالمی استعمار برطانیہ، روس، اور بڑے معاشی اور اقتصادی قوت امریکہ سب کو بیک وقت چیلنج کر دیا، حالانکہ جرمنی کی نہ معاشی حالت اس وقت ٹھیک تھی اور نہ ہی وہ زیادہ جنگی تجربات کے حامل تھے۔ وہ یہ فیصلہ کر گئے کہ ہم ان قوتوں کے ساتھ لڑیں گے آخری فوجی کے بقائے تک۔ یقیناً ہٹلر نے زہر خواری اور خودکشی کے مقابلے میں تمنّا کی ہوگی کہ کاش وہ جنون کے پانی کے بدلے عقل مندی کا وہ پانی پیتا جو ان کے مشیروں نے پیا تھا۔
تو حل کیا ہے؟ جنون کا پانی پینا یا چھوڑ دینا؟
حقیقت حال یہ ہے کہ گلاس ایک قسم نہیں بلکہ دو قسم کے ہیں:
اگر آپ نے بھی اسے اپنا لیا تو گویا آپ بھی ان لوگوں کی صفوں میں جا ملے جو جنون کے شکار ہیں اور ان کی دلکی آنکھ کو جہالت کی تاریکیوں نے کورا کر دیا۔
اور اگر آپ اسے چھوڑ دیں گے تو ممکن ہے کہ لوگ آپ کا عارضی بائیکاٹ کردیں گے، مگر یہ کہ آپ حق پر ہوں گے۔ لیکن اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اپنی پختگی اور حکمت پر کتنا اعتماد کرتے ہیں، اور جو کچھ آپ مانتے ہیں اسے ثابت کرنے میں آپ کتنے پُرعزم ہیں۔
فیصلہ کر کے اس پر ڈٹے رہنے میں، جبکہ مخالفین کی تعداد زیادہ ہو، احتیاط برتنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ بعض اوقات کچھ لوگ آپ کے جذبات کی تائید ایسے موقع پر کرتے ہیں جہاں آپ اپنے فیصلے کی درستگی ثابت نہیں کر سکتے، تو آپ لازمی ایک بند گلی میں ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے جہاں فیصلے پر عمل درآمد کی استطاعت نہ ہو، وہاں فیصلہ لینے کا فائدہ بھی نہیں ہے۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو جنون کے گلاس سے پانی پینے کے ہمیشہ معارض رہتے ہیں لیکن وہ لوگ سوائے مخالفت کے کچھ نہیں جانتے ہیں۔ لوگوں کا ان پر اعتماد اس لیے کمزور ہوجاتا ہے کہ وہ جو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اسے ثابت کرنے سے قاصر ہیں، یا اس لیے کہ ان کے پاس اپنی رائے و سوچ ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔
1- ایک دس گیارہ سال کی بچی فقیر بچی نے بتایا کہ جمعہ کے روز کو چھوڑ کر روزانہ پندرہ سو روپے بطور ٹارگٹ جمع کرتی ہے۔ جبکہ کہ جمعہ کے دن چونکہ عوام سڑکوں پر کم ہوتی ہے لہٰذا جمعہ کے دن کا ٹارگٹ پانچ سو روپیہ ہے۔ یہ کام وہ دوپہر ایک بجے سے مغرب کی اذان تک کرتی ہے۔ اس بچی کی ماہانہ آمدنی چالیس سے پینتالیس ہزار ہے۔ اور اس کے گھر کے چار بچے اور بچیاں یہی کام کرتے ہیں۔
1- ایک ٹانگ سے معذور شخص اور ایک دس گیارہ سال کا بچہ ملکر روزانہ دو سے ڈھائی ہزار کی کمائی کرتے ہیں۔ کوئی ناغہ نہیں کرتے۔ دو سو روپیہ روزانہ بچے کو ملتے ہیں بطور جیب خرچ۔ باقی لنگڑا شخص لیتا ہے۔ پہلے وہ یہ کام لاڑکانہ میں کرتے تھے لیکن وہاں سے بھاگ کر کوئٹہ آئے۔ ٹانگ کیسے معذور ہوئی اس بارے اس شخص کو کچھ یاد نہیں۔ ماہانہ آمدنی ساٹھ ہزار سے زائد۔
3- ایک مزدور حلیہ کا شخص، جسکا سلوگن ہے”آج بھی کام نہیں ملا”۔ اوقات کار مغرب کی اذان سے لیکر رات دس گیارہ بجے تک۔ روزانہ آمدن چار ہزار سے پانچ ہزار تک۔ ماہانہ آمدن تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے۔
4- ایک عورت بمہ چار بچے، اوقات کار دوپہر ایک بجے تا رات آٹھ نو بجے تک۔ روزانہ کمائی تین ہزار سے چار ہزار۔ کوئی ناغہ نہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کا دیا کپڑا، سامان، کھانا، راشن وغیرہ الگ شامل ہیں۔ ماہانہ آمدنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے۔
اس کام میں کوئی انویسٹمنٹ نہیں ہے, نہ کوئی تعلیم، نہ کوئی کورس، نہ کسی اکیڈمی کو جوائن کرنا ہے۔
ایک مرتبہ ایک کوئٹہ میں مانگنے والا کراچی صدر کے ہوٹل میں ساتھ والے کمرے میں رہائش پذیر تھا۔ پہچان لینے اور اصرار کرنے پر بولا کیوں ہم چھٹیاں نہیں منا سکتے؟
سوچئے، کیا ہم ایسے بہروپئے افراد کو اپنی کمائی سے خدا ترسی میں آ کر کتنا دے رہے ہیں اور ان کی وجہ سے جو اطراف میں، دوستوں رشتے داروں میں ضرورت مند افراد ہیں جو سفید پوش لوگ ہیں وہ اپنی عزت نفس کو بچانے کی خاطر کس قدر تنگ دستی میں مبتلا ہیں۔ خدارا ایسے کاروباری فقیروں کو کچھ نہیں دیں۔ انھیں کام دینے کی آفر کریں اگر قبول کریں تو ان سے کام لیں ورنہ چلتا کریں۔
اپنی زکات خیرات مستند اداروں کو دیں جو کار خیر کے کام کر رہے ہیں۔ جو عوام میں موجود بیروزگاروں، یتیموں، مسکینوں، ناداروں، طالب علموں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ آپ کا ایک ایک روپیہ ملکر وہ کام کر سکتا ہے جو پروفیشنل فقیروں کے پاس چلے جانے سے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔