بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 2) – بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 2) – بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 2)

بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟

آج ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کو ڈھائی سال کی عمر میں اسکول میں داخل کرادیا جاتا ہے اور بچے کو انگلش سکھانا شروع کر دیا جاتا ہے حالانکہ اس عمر میں بچہ نے اپنی مادری زبان بھی نہیں سیکھی ہوتی اور دوسرا ظلم ہم یہ کرتے ہیں کہ انگلش میڈیم اسکولوں میں بچے کو انگلش سکھانے کی خاطر ان کے دوسرے مضامین اسلامیات، سائنس، معاشرتی وغیرہ بھی انگلش میں پڑھاتے ہیں جس کی وجہ بچے کو نہ انگلش آتی ہے اور نہ ہی دوسرے مضامین۔

ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو (150) گھنٹے درکار ہوتے ہیں لیکن ہمارے تعلیمی نظام پر ایسے انگلش کا بھوت سوار ہے کہ نرسری سے لے کر میٹرک تک ہم تقریباً 1200 گھنٹے انگریزی کو اور دوسرے جو انگلش میں پڑھائے جاتے ہیں وہ شامل کر لیے جائے تو تقریباً 7000 ہزار گھنٹے انگلش زبان کو دیتے ہیں اور یہی حال مدارس کے طلبہ کا ہے وہ عربی کو تقریباً اتنا ہی وقت دیتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے بچوں کو انگریزی اور عربی نہیں آتی۔

مادری زبان نہ سیکھنے کا نقصان

اس کی وجہ صرف و صرف یہ ہے کہ بچہ نے اپنی مادری زبان نہیں سیکھی ہوتی اور ہم اُسے دوسری زبان لکھائی اور پڑھائی شروع کرادیتے ہیں جس میں بچہ کے سامنے ایسے الفاظ آتے ہیں جس کا بچہ نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا اور نہ سنے ہوتے ہیں اور نہ دیکھے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ رٹہ لگا کر ABC تو سیکھ جاتا ہے لیکن پڑھنے لکھنے سے بیزار ہوتا ہے۔

اس کی مثال ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کی تقریباً 9 کروڑ آبادی لکھنا پڑھنا جانتی ہے لیکن لکھتی پڑھتی نہیں۔ آخری مرتبہ قلم اُس وقت اُٹھایا تھا جب امتحان کا آخری پرچہ دیا تھا۔ اس کے بعد کسی موضوع پر کچھ لکھنے کی نوبت نہیں آتی اور آخری کتاب بھی وہی آخری کورس میں شامل ٹیکسٹ بک ہی تھی۔ اس کے بعد کوئی کتاب خریدنے کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوتی۔

بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟

لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم بچوں کو دوسری زبان سکھانے کے لیے بھی وہی طریقہ اختیار کریں جس طریقہ سے بچہ نے اپنی مادری زبان سیکھی تھی۔

بچہ کی زبان سیکھنے کے مراحل

اب سوال یہ ہے کہ بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟ تو اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں بچہ کے پیدائش سے لے کر اس کے صحیح باتیں شروع کرنے تک کے درجات کا جائزہ لینا ہو گا۔

پہلا درجہ: رونا

غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوا کہ بچہ کے زبان سیکھنے کا سب سے پہلا درجہ اس کا رونا ہے۔ وہ رونے کے ذریعے اپنی بات اپنی ماں کو سمجھاتا ہے۔ چھ ہفتے کے بچے کے رونے کی مختلف نوعیتیں ہوتیں ہیں۔ اس کی والدہ سمجھ جاتی ہے کہ اسے کیا مسئلہ ہے بھوک لگی ہے، پیٹ میں درد ہے، گرمی لگ رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے ایک سال کی عمر تک اگر بچہ ایک منٹ روتا رہے اور اُس کے رونے پر والدہ اُس کی طرف توجہ نہ دے اور اس طرح مسلسل ہوتا رہے تو اس بچہ کا دماغ متاثر ہوتا ہے اور اُس میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ وہ رونے کے ذریعہ اپنی بات سمجھانا چاہتا ہے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔

دوسرا درجہ: آوازیں نکالنا

دوسرے درجے میں بچہ رونے کے ساتھ کچھ اور آوازیں بھی نکالنا شروع کرتا ہے۔ جس میں وہ خوشی ظاہر کرتا ہے یا ویسے ہی آوازیں نکال رہے ہیں، اس لیے وہ بھی آوازیں نکالتا ہے جس پر ہم چار کام کرتے ہیں:

  1. ہم اس کی آوازوں کی طرف توجہ دیتے ہیں
  2. ہم خوش ہوتے ہیں
  3. ہم اُس کی طرف متوجہ ہو کر اُس کو دہراتے ہیں
  4. اور اُس کی آوازوں کو ہم کوئی خاص معنی دے دیتے ہیں کہ یہ مجھے پکار رہا ہے۔ ماں کہتی ہے کہ مجھے آواز دے رہا ہے۔

ان کاموں کے نتیجے میں بچہ مزید آوازیں نکالتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنی آوازوں کو دہرانا شروع کر دیتا ہے۔

تیسرا درجہ: نام بنانا

تیسرے درجے میں بچہ جب ٹھوس کھانوں پر آتا ہے تو وہ چیزوں کے ادھورے نام اور اپنے الفاظ بنا کر باتیں کرتا ہے جیسے پانی کو مم، دودھ کو دُو دُو وغیرہ وغیرہ۔

اس وقت ہم بچہ کے الفاظ پر دھیان نہیں دیتے بلکہ ان کی غایت پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ مم بولتا ہے تو ہم پانی دے دیتے ہیں۔ اگر اس درجہ میں ہم بچوں کو غلطیاں پکڑنا شروع کریں اور ان سے کہیں کہ نہیں پانی بولو پھر پانی دونگی تو بچہ زندگی بھر صحیح بولنا نہ سیکھ پاتا۔ لیکن چونکہ ہم بچہ کی غلطیاں نہیں پکڑتے، اس وجہ سے وہ صحیح بولنا سیکھ جاتے ہیں۔

چوتھا اور آخری درجہ: صحیح بولنا

چوتھے اور آخری درجہ میں بچہ صحیح بولنا سیکھ جاتا ہے۔ اور اس کی علامت تین چیزیں ہیں:

  1. وہ اپنی مادری زبان میں اپنا مسئلہ بیان کر سکے
  2. وہ کون، کب، کیا، کیسے، کہاں، کیوں سے سوال کر سکتا ہے یا نہیں
  3. وہ کوئی واقعہ نقل کر سکتا ہے یا نہیں
وضاحت: زبان سیکھنے سے متعلق جتنی معلومات یہاں پیش کی گئی اور جو آئندہ ذکر کا جائے گی یہ سلیمان آصف صدیقی صاحب جو ERDC کے بانی ہیں، ان کی تحقیق ہے۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کا پہلا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 2) – بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 1) – ماں باپ کی ابتدائی ذمہ داریاں

جمیل میرے پاس آیا اور کہنے لگا، “مفتی صاحب، بچے کے کان میں آذان دینی ہے۔” میں نے کہا کہ خود دے دو تو جواب دیا، “مجھے نہیں آتی۔” اسی طرح اکثر لوگ مجھ سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے سوال کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے مناسب لگا کہ پہلے بچوں کی تعلیم و تربیت پر قسط وار تحریریں لکھوں۔ زیر نظر تحریر اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ امید ہے پسند آئے گی۔ اپنے قیمتی مشوروں سے آگاہ کرتے رہیں۔

نومولود بچہ کے کان میں آذان:

بچوں کی تعلیم و تربیت میں سب سے پہے پیدائش کے وقت انکے کان میں آذان دینا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے نواسے حسن بن علی کے کان میں آذان پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کی ولادت ہوئی۔

ایک دوسری حدیث جو “کنز العمال” میں مسند ابویعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے، اس میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ اُم الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا (جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے)۔

ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نومولود بچہ کا پہلا حق گھر والوں پر یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے کانوں اور کانوں کے ذریعہ اس کے دل و دماغ کو اللہ کے نام، اس کی توحید، اور ایمان و نماز کی دعوت کی پکار سے آشنا کریں۔

تخیک اور دعائے برکت

اس کے علاوہ،رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا، اس کا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نو مولود بچے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے جاتے تاکہ آپ ﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائیں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو۔ اس عمل کو تخیک کہتے ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے تو آپ ﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے۔

کتب حدیث میں “تخیک” کے بہت سے واقعات مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھرانے میں بچہ پیدا ہو تو چاہیئے کہ کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اسے لے جائیں تاکہ وہ اس کے لیے خیر و برکت کی دعائیں کریں اور “تخیک” بھی کرائیں۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے۔

عقیقہ کرنا

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی خوشی میں ساتویں دن لڑکے کی پیدائش پر دو (2) بکرے اور لڑکی کی پیدائش پر ایک (1) بکری یا ایک (1) بکرے کی قربانی کرنا عقیقہ کہلاتا ہے۔ البتہ یہ عقیقہ فرض و واجب کی طرح لازمی نہیں بلکہ استحباب کے درجے میں ہے۔

اور لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ میں دو (2) بکریوں کی قربانی کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے، ہاں اگر وسعت ہو تو دو (2) قربانیاں بہتر ہیں، ورنہ ایک کافی ہے۔

چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عقیقہ میں ایک ایک مینڈھے کی قربانی کی ہے۔

سر منڈوانا

اگر وسعت ہو تو ساتویں دن بچے کے بالوں کو منڈوا کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا بھی مستحب ہے۔

حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کر دو اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی کا صدقہ کر دو۔ ہم نے وزن کیا تو وہ ایک درہم کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے۔

سرپر زعفران لگانا

بچے کا سر منڈوانے کے بعد اس کے سر پر زعفران لگانا بھی حدیث سے ثابت ہے۔

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہمارا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا۔ پھر جب اسلام آیا تو (رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق) ہمارا طریقہ یہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے۔

اچھا نام رکھنا

بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے۔ اور یہ بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کا حصہ ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

“حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے نام سے پکارے جاؤ گے (یعنی پکارا جائے گا فلاں بن فلاں) لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو۔”

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتھ ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے۔ لیکن بعض احادیث سے آپ ﷺ کا عمل بعض بچوں کا نام پہلے ہی دن رکھنا معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا پیدائش کے دن یا ساتویں دن سے پہلے بچے کا نام رکھنے میں مضائقہ نہیں۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔

اسلامی کہانی: اندھے شخص کا سبق آموز واقعہ

اسلامی کہانی: اندھے شخص کا سبق آموز واقعہ

اندھے شخص کا سبق آموز واقعہ

یہ ایک اسلامی کہانی ہے جوہمارے معاشرے کع لیےنہایت سبق آموز ہے۔

ایک نابینا شخص ایک عمارت کی دہلیز پر بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے سامنے اپنی ٹوپی رکھی اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا بورڈ رکھا جس پر لکھا ہوا تھا: “میں اندھا ہوں، براہ کرم میری مدد کریں۔” ایک شخص اس اندھے کے پاس سے گزرا، دیکھا کہ اس کی ٹوپی میں صرف چند پیسے ہیں، اس نے اپنے جیب سے کچھ اور پیسے ڈال دیے، اور پھر چھپ کر اندھے شخص کا بورڈ اٹھا کر اس پر ایک اور جملہ لکھا اور اسے اپنی جگہ پر رکھ کر چل پڑا۔

تھوڑی دیر بعد اس نابینا شخص نے دیکھا کہ اس کی ٹوپی پیسوں اور نوٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہ حیران ہوا اور ایک راہگیر کو روک کر پوچھا کہ بورڈ پر کیا لکھا ہوا ہے؟ راہگیر نے بتایا: “ہم موسم بہار میں ہیں لیکن میں اس کی خوبصورتی نہیں دیکھ سکتا ہوں۔”

نظریہ تبدیل کریں، نتیجہ بدل جائے گا

پہلے اور دوسرے جملے میں واضح فرق تھا، حالانکہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ مالک نابینا ہے۔ مگر دوسرا جملہ لوگوں کے دلوں کو چھونے والا تھا اور انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب معاملات اپنے رخ پر ٹھیک نہیں چلتے، تو ہمیشہ اپنے وسائل اور طریقہ کار کو تبدیل کریں کیونکہ ہمیشہ ایک بہتر راستہ موجود ہوتا ہے۔

کرسٹل اسٹور کے مالک کی کامیابی کی کہانی

مجھے ایک کرسٹل اسٹور کے مالک کا واقعہ یاد آیا۔ وہ کرسٹل کی مختلف اشیاء بیچتا تھا، اور اس تجارت میں اس نے کافی عرصہ لگایا تھا، مگر اس کی تجارتی سطح روز بروز نیچے گرتی جا رہی تھی۔ اسٹور کے مالک نے اس تجارتی بحران کے بارے میں خاص طور پر کچھ نہیں سوچا تھا، یہاں تک کہ ایک دن ایک غریب نوجوان لڑکا اس کے پاس آیا، اور اس سے کہا کہ میں صرف دوپہر کے کھانے کے عوض آپ کے دکان کے سامان کی صفائی کروں گا۔ مالک نے منظور کیا، اور نوجوان نے صفائی کا کام شروع کیا۔

ابھی مکمل صفائی نہیں ہوئی تھی کہ خریدار کرسٹل اسٹور کی طرف آنے لگے۔ مالک اس نوجوان کے کام سے متاثر ہوا اور اسے باقاعدہ ملازم رکھ لیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نوجوان نے اپنے مالک کو مشورہ دیا کہ وہ ایک الماری بنوا کر اسٹور کے باہر لگائے تاکہ پروڈکٹ کو خریداروں کے دلوں کو لبھانے کے لیے پیش کیا جا سکے۔ طویل سوچ وبچار کے بعد مالک نے الماری بنوا دی۔ چند دن بعد گاہکوں کی تعداد اور فروخت میں اضافہ ہوا۔

تبدیلی کی اہمیت اور سوچ کا نیا زاویہ

نوجوان کی ہمت نے مالک کو نیا زاویہ دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نوجوان نے ایک اور حیرت انگیز تجویز دی: “ہم آنے والے گاہکوں کو تازہ پتی والی چائے کرسٹل کے پیالوں میں پیش کریں گے تاکہ وہ قریب سے کرسٹل کی خوبصورتی کو دیکھ سکیں۔” لڑکے کے اصرار کے بعد مالک نے اتفاق کیا، اور جیسے ہی انہوں نے یہ آئیڈیا آزمایا، گاہکوں کا تانتا بندھ گیا۔ ان کی تجارت کو اس مثبت سوچ کی وجہ سے خوب ترقی ملی۔

آپ کی زندگی میں تبدیلی کی ضرورت؟

اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اسٹور کے مالک نے کبھی تبدیلی کا نہیں سوچا، بلکہ اپنے خسارے پر راضی ہوگئے تھے۔ اگر ہم بغور جائزہ لیں تو موجودہ کامیابی میں تمام قسم کے افکار بیرون سے آئے ہیں جو کامیابی کا سبب بنے۔ اگر آپ بھی اسی طرح کی صورتحال میں ہیں، تو یہ وقت ہے کہ آپ اپنی سوچ کو تبدیل کریں اور اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے نئے طریقوں پر غور کریں۔

اہم سوالات:

  • کیا آپ نے اپنی زندگی کا کوئی مقصد بنایا ہے؟
  • کیا آپ نے اپنے ہدف کے حصول کے لیے نئے طریقے آزمائے ہیں؟
  • کیا آپ نے اپنے اعتماد مند ساتھیوں سے مشورہ کیا ہے؟
  • کیا آپ کے پاس اتنی جرأت ہے کہ آپ اپنے آپ کو تبدیل کریں؟

نتیجہ:

اپنے ان سوالات کے جوابات لکھیں، غور کریں، اور معلوم کریں کہ اب آپ کے کرنے کا کام کیا ہے۔

اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں-

اسلامی کہانی: اندھے شخص کا سبق آموز واقعہ

اسلامی کہانی : جنون کی نہر کا سبق آموز واقعہ

 جنون کی نہر کا عذاب

کہا جاتا ہے کہ پاگل پن کا طاعون کسی شہر کے ایک نہر میں نازل ہوا تھا، اور جب بھی کوئی اس نہر سے پانی پیتا تھا تو وہ پاگل ہو جاتا تھا۔ پاگل لوگ ایک ایسی زبان بولتے جو عقلمند لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے، اور آئے روز پاگلوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔

بادشاہ سلامت نے اس وباء کا خطرہ اس وقت بھانپ لیا جب طاعون کی بیماری کا پھیلاؤ شاہی محل کی دہلیز پر آپہنچا۔ ایک دن صبح، ملکہ بھی پاگل ہو کر پاگلوں کے ایک گروہ سے مل گئی اور علی الاعلان بادشاہ کے پاگل پن کی شکایت کی۔

بادشاہ نے وزیر سے کہا

: “شاہی دربان چی کہاں تھے؟”

وزیر

: “بادشاہ سلامت، دربان چی کو جنون کی بیماری ملکہ سے پہلے لگی ہوئی تھی۔”

بادشاہ

: “تو فوراً ڈاکٹر کو بلا لو۔”

وزیر

: “وہ تو عرصہ ہوا جنون کی بیماری کا شکار ہوا ہے۔”

بادشاہ:

“یہ کیسی آفت ہے؟ کیا شہر میں کوئی اس بلا سے بچا ہے؟”

وزیر

: “بادشاہ سلامت، میرے اور آپ کے علاوہ پورے شہر میں کوئی نہیں بچا ہے۔”

بادشاہ

: “اے میرے مولیٰ، مجھے پاگلوں کی دنیا کی حکمرانی کی آزمائش سے بچا۔”

وزیر: “بادشاہ سلامت! معذرت کے ساتھ، وہ تو پورے مملکت میں یہ افواہ پھیلا چکے ہیں کہ ہم عقل مند ہیں، اور پورے ملک میں صرف دو پاگل ہیں: بادشاہ اور اس کے وزیر۔”

بادشاہ

: “یہ تو بکواس کر رہے ہیں۔ نہر جنون سے پانی وہ پیئے ہیں اور طعنے ہمیں دے رہے ہیں۔”

وزیر

: “بادشاہ سلامت، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے نہر جنون سے پانی پاگل پن سے بچاؤ کے لیے پیا ہے، البتہ صرف دو آدمی، بادشاہ اور اس کا وزیر، جنہوں نے اس نہر سے پانی نہیں پیا، وہ پاگل پن کے شکار ہوگئے ہیں۔”

وزیر

: “بادشاہ سلامت، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری حیثیت ان کے بھاری اکثریت کے سامنے ریت کے دو ذروں سے زیادہ نہیں ہے، اور پوری دنیا بھی انہیں عقل مند سمجھتی ہے۔”

بادشاہ

: “وزیر صاحب، تو مجھے بھی اس نہر جنون سے پلا دو، اس لیے کہ ‘پاگل پن تو یہ ہے کہ کوئی آدمی پاگلوں کی دنیا میں عاقل ہو کر رہے۔'”


تبدیلی کی اہمیت اور خود پر اعتماد

یقیناً ایسے وقت میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ارادے اور منصوبے بلند وبالا ہوں اور ان کی رائے باقی دنیا سے مختلف ہو۔ ایسے وقت میں کسی سے متاثر ہوئے بغیر اور نہر جنون سے پانی پیئے بغیر اپنے موقف پر ثابت قدم رہنا، فضل خداوندی ہے۔

کیا کبھی آپ سے کسی نے کہا ہے: “کہ باقی پوری دنیا غلط ہے اور صرف آپ صحیح رائے رکھتے ہیں؟” اس کا مطلب یہ ہے کہ “وہ آپ کو نہر جنون سے پانی پینے کی دعوت دے رہا ہے۔”

سوچیئے! جب آپ اپنے دفتر یا ورکشاپ میں داخل ہوتے ہیں اور آپ کا کوئی ایسا ساتھی جو عادتاً دیر سے آتا ہے اور بہت معمولی منصوبے پر عمل پیرا ہوتا ہے، کیا آپ اس سے متاثر ہو کر اپنے بلند وبالا پرواز چھوڑ دیتے ہیں اور معمولی اور چھوٹے منصوبوں پر اکتفا کرتے ہیں؟


تاریخی مثالیں اور سبق

کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کسی غیر متوقع شخص کی زبان پر کلمہ حق جاری کر دیتا ہے، اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی صاحب الرائے کی سوچ کسی نتیجے پر پہنچ جاتی ہے لیکن عام لوگوں کی رسائی اس تک سینکڑوں سال بعد ہوتی ہے، جیسا کہ اٹالین مشہور سائنسدان گلیلیو (1564ء – 1642ء) نے یہ انکشاف کیا کہ زمین کروی (گول شکل) ہے، جس کے نتیجے میں انہیں جیل بھیجا گیا۔ وہ وہیں مر گئے، اور 350 سال بعد ان کی بات تک دوسرے سائنسدانوں کی رسائی ہوئی، معلوم ہوا کہ اس وقت گلیلیو کی بات ٹھیک تھی۔


خود پر اعتماد اور صحیح فیصلہ

کیا ذاتی رائے رکھنا ضروری ہے، اور اس پر اصرار کرنا صحیح طرز عمل ہے؟

پرانے زمانے میں ایک مضمون نگار تھا جس کا تجربہ کم تھا، وہ ہمیشہ غیر سنجیدہ آراء قائم کرکے اپنے مضامین سے لوگوں کو پریشان کرتا تھا، یہاں تک کہ انہیں معزول کیا گیا۔ اور واقعی ایک عرصہ بعد پتہ چلا کہ ان کی ساری باتیں بکواس تھیں۔ تو ایسے مضمون نگار کو چاہیے کہ وہ نہر جنون کے پانی پیئے۔

اسی طرح ہٹلر کی کم عقلی لے لو جب اس نے اپنے وقت کے عالمی استعمار برطانیہ، روس، اور بڑے معاشی اور اقتصادی قوت امریکہ سب کو بیک وقت چیلنج کر دیا، حالانکہ جرمنی کی نہ معاشی حالت اس وقت ٹھیک تھی اور نہ ہی وہ زیادہ جنگی تجربات کے حامل تھے۔ وہ یہ فیصلہ کر گئے کہ ہم ان قوتوں کے ساتھ لڑیں گے آخری فوجی کے بقائے تک۔ یقیناً ہٹلر نے زہر خواری اور خودکشی کے مقابلے میں تمنّا کی ہوگی کہ کاش وہ جنون کے پانی کے بدلے عقل مندی کا وہ پانی پیتا جو ان کے مشیروں نے پیا تھا۔


فیصلہ کرنا اور ثابت قدم رہنا

تو حل کیا ہے؟ جنون کا پانی پینا یا چھوڑ دینا؟

حقیقت حال یہ ہے کہ گلاس ایک قسم نہیں بلکہ دو قسم کے ہیں:

  • عقل والا گلاس

  • : جو درست رائے، حکمت، اور عقل مندی پر مشتمل ہے۔ ضد چھوڑ کر بلا جھجھک ایسے گلاس سے پانی پی کر ہوشیاروں کی جماعت میں شامل ہونا انتہائی مناسب اقدام ہے۔
  • جنون والا گلاس:

  • جس میں آپ کو ہر وہ چیز ملے گی جو عام لوگوں کے طرز معاشرت میں موجود ہوتی ہے، خواہ وہ کتنا ہی غلط ہو۔ کبھی کبھی اس کے دائرے میں خوف، ذلت کے ساتھ ساتھ ایسے خطرناک موڑ بھی ہوتے ہیں جو بظاہر ترقی کی راہ دکھائی دیتے ہیں مگر اس سے انسان ایک گہری کھائی میں جا کر ہلاک ہو جاتا ہے، حالانکہ اس طرز زندگی کو عام مقبولیت بھی حاصل ہے۔

اگر آپ نے بھی اسے اپنا لیا تو گویا آپ بھی ان لوگوں کی صفوں میں جا ملے جو جنون کے شکار ہیں اور ان کی دلکی آنکھ کو جہالت کی تاریکیوں نے کورا کر دیا۔

اور اگر آپ اسے چھوڑ دیں گے تو ممکن ہے کہ لوگ آپ کا عارضی بائیکاٹ کردیں گے، مگر یہ کہ آپ حق پر ہوں گے۔ لیکن اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اپنی پختگی اور حکمت پر کتنا اعتماد کرتے ہیں، اور جو کچھ آپ مانتے ہیں اسے ثابت کرنے میں آپ کتنے پُرعزم ہیں۔


نتیجہ

فیصلہ کر کے اس پر ڈٹے رہنے میں، جبکہ مخالفین کی تعداد زیادہ ہو، احتیاط برتنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ بعض اوقات کچھ لوگ آپ کے جذبات کی تائید ایسے موقع پر کرتے ہیں جہاں آپ اپنے فیصلے کی درستگی ثابت نہیں کر سکتے، تو آپ لازمی ایک بند گلی میں ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے جہاں فیصلے پر عمل درآمد کی استطاعت نہ ہو، وہاں فیصلہ لینے کا فائدہ بھی نہیں ہے۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو جنون کے گلاس سے پانی پینے کے ہمیشہ معارض رہتے ہیں لیکن وہ لوگ سوائے مخالفت کے کچھ نہیں جانتے ہیں۔ لوگوں کا ان پر اعتماد اس لیے کمزور ہوجاتا ہے کہ وہ جو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اسے ثابت کرنے سے قاصر ہیں، یا اس لیے کہ ان کے پاس اپنی رائے و سوچ ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔

اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔

Investment and Return

انویسٹمنٹ اینڈ ریٹرن

ریحان محمود

کوئٹہ کے چار فقیروں سے انٹرویو/بات چیت کی جو آپ کے سامنے پیش ہے۔

1- ایک دس گیارہ سال کی بچی فقیر بچی نے بتایا کہ جمعہ کے روز کو چھوڑ کر روزانہ پندرہ سو روپے بطور ٹارگٹ جمع کرتی ہے۔ جبکہ کہ جمعہ کے دن چونکہ عوام سڑکوں پر کم ہوتی ہے لہٰذا جمعہ کے دن کا ٹارگٹ پانچ سو روپیہ ہے۔ یہ کام وہ دوپہر ایک بجے سے مغرب کی اذان تک کرتی ہے۔ اس بچی کی ماہانہ آمدنی چالیس سے پینتالیس ہزار ہے۔ اور اس کے گھر کے چار بچے اور بچیاں یہی کام کرتے ہیں۔

1- ایک ٹانگ سے معذور شخص اور ایک دس گیارہ سال کا بچہ ملکر روزانہ دو سے ڈھائی ہزار کی کمائی کرتے ہیں۔ کوئی ناغہ نہیں کرتے۔ دو سو روپیہ روزانہ بچے کو ملتے ہیں بطور جیب خرچ۔ باقی لنگڑا شخص لیتا ہے۔ پہلے وہ یہ کام لاڑکانہ میں کرتے تھے لیکن وہاں سے بھاگ کر کوئٹہ آئے۔ ٹانگ کیسے معذور ہوئی اس بارے اس شخص کو کچھ یاد نہیں۔ ماہانہ آمدنی ساٹھ ہزار سے زائد۔

3- ایک مزدور حلیہ کا شخص، جسکا سلوگن ہے”آج بھی کام نہیں ملا”۔ اوقات کار مغرب کی اذان سے لیکر رات دس گیارہ بجے تک۔ روزانہ آمدن چار ہزار سے پانچ ہزار تک۔ ماہانہ آمدن تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے۔

4- ایک عورت بمہ چار بچے، اوقات کار دوپہر ایک بجے تا رات آٹھ نو بجے تک۔ روزانہ کمائی تین ہزار سے چار ہزار۔ کوئی ناغہ نہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کا دیا کپڑا، سامان، کھانا، راشن وغیرہ الگ شامل ہیں۔ ماہانہ آمدنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے۔

اس کام میں کوئی انویسٹمنٹ نہیں ہے, نہ کوئی تعلیم، نہ کوئی کورس، نہ کسی اکیڈمی کو جوائن کرنا ہے۔
ایک مرتبہ ایک کوئٹہ میں مانگنے والا کراچی صدر کے ہوٹل میں ساتھ والے کمرے میں رہائش پذیر تھا۔ پہچان لینے اور اصرار کرنے پر بولا کیوں ہم چھٹیاں نہیں منا سکتے؟

سوچئے، کیا ہم ایسے بہروپئے افراد کو اپنی کمائی سے خدا ترسی میں آ کر کتنا دے رہے ہیں اور ان کی وجہ سے جو اطراف میں، دوستوں رشتے داروں میں ضرورت مند افراد ہیں جو سفید پوش لوگ ہیں وہ اپنی عزت نفس کو بچانے کی خاطر کس قدر تنگ دستی میں مبتلا ہیں۔ خدارا ایسے کاروباری فقیروں کو کچھ نہیں دیں۔ انھیں کام دینے کی آفر کریں اگر قبول کریں تو ان سے کام لیں ورنہ چلتا کریں۔
اپنی زکات خیرات مستند اداروں کو دیں جو کار خیر کے کام کر رہے ہیں۔ جو عوام میں موجود بیروزگاروں، یتیموں، مسکینوں، ناداروں، طالب علموں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ آپ کا ایک ایک روپیہ ملکر وہ کام کر سکتا ہے جو پروفیشنل فقیروں کے پاس چلے جانے سے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔

Investment and return

انویسٹمنٹ اینڈ ریٹرن

ریحان محمود

کوئٹہ کے چار فقیروں سے انٹرویو/بات چیت کی جو آپ کے سامنے پیش ہے۔

1- ایک دس گیارہ سال کی بچی فقیر بچی نے بتایا کہ جمعہ کے روز کو چھوڑ کر روزانہ پندرہ سو روپے بطور ٹارگٹ جمع کرتی ہے۔ جبکہ کہ جمعہ کے دن چونکہ عوام سڑکوں پر کم ہوتی ہے لہٰذا جمعہ کے دن کا ٹارگٹ پانچ سو روپیہ ہے۔ یہ کام وہ دوپہر ایک بجے سے مغرب کی اذان تک کرتی ہے۔ اس بچی کی ماہانہ آمدنی چالیس سے پینتالیس ہزار ہے۔ اور اس کے گھر کے چار بچے اور بچیاں یہی کام کرتے ہیں۔

1- ایک ٹانگ سے معذور شخص اور ایک دس گیارہ سال کا بچہ ملکر روزانہ دو سے ڈھائی ہزار کی کمائی کرتے ہیں۔ کوئی ناغہ نہیں کرتے۔ دو سو روپیہ روزانہ بچے کو ملتے ہیں بطور جیب خرچ۔ باقی لنگڑا شخص لیتا ہے۔ پہلے وہ یہ کام لاڑکانہ میں کرتے تھے لیکن وہاں سے بھاگ کر کوئٹہ آئے۔ ٹانگ کیسے معذور ہوئی اس بارے اس شخص کو کچھ یاد نہیں۔ ماہانہ آمدنی ساٹھ ہزار سے زائد۔

3- ایک مزدور حلیہ کا شخص، جسکا سلوگن ہے”آج بھی کام نہیں ملا”۔ اوقات کار مغرب کی اذان سے لیکر رات دس گیارہ بجے تک۔ روزانہ آمدن چار ہزار سے پانچ ہزار تک۔ ماہانہ آمدن تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے۔

4- ایک عورت بمہ چار بچے، اوقات کار دوپہر ایک بجے تا رات آٹھ نو بجے تک۔ روزانہ کمائی تین ہزار سے چار ہزار۔ کوئی ناغہ نہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کا دیا کپڑا، سامان، کھانا، راشن وغیرہ الگ شامل ہیں۔ ماہانہ آمدنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے۔

اس کام میں کوئی انویسٹمنٹ نہیں ہے, نہ کوئی تعلیم، نہ کوئی کورس، نہ کسی اکیڈمی کو جوائن کرنا ہے۔
ایک مرتبہ ایک کوئٹہ میں مانگنے والا کراچی صدر کے ہوٹل میں ساتھ والے کمرے میں رہائش پذیر تھا۔ پہچان لینے اور اصرار کرنے پر بولا کیوں ہم چھٹیاں نہیں منا سکتے؟

سوچئے، کیا ہم ایسے بہروپئے افراد کو اپنی کمائی سے خدا ترسی میں آ کر کتنا دے رہے ہیں اور ان کی وجہ سے جو اطراف میں، دوستوں رشتے داروں میں ضرورت مند افراد ہیں جو سفید پوش لوگ ہیں وہ اپنی عزت نفس کو بچانے کی خاطر کس قدر تنگ دستی میں مبتلا ہیں۔ خدارا ایسے کاروباری فقیروں کو کچھ نہیں دیں۔ انھیں کام دینے کی آفر کریں اگر قبول کریں تو ان سے کام لیں ورنہ چلتا کریں۔
اپنی زکات خیرات مستند اداروں کو دیں جو کار خیر کے کام کر رہے ہیں۔ جو عوام میں موجود بیروزگاروں، یتیموں، مسکینوں، ناداروں، طالب علموں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ آپ کا ایک ایک روپیہ ملکر وہ کام کر سکتا ہے جو پروفیشنل فقیروں کے پاس چلے جانے سے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔

لائف چینجنگ فاؤنڈیشن کا ممبر بننے کے فائدے-مندرجہ ذیل کورسز بالکل فری

Benefits for Life changing the Foundation’s members

Courses Name: Freelancing (IT) personality development + Islamic knowledge.
Training
Freelancing, and all types of freelancing platforms.
How to earn from Fiverr.
How to earn from YouTube.
How to earn from Amazon.
How to plan 2024.
Goal setting
Technical Skills
How to Start a Business
How to earn from digital marketing
He has given all these trainings.
Time Management
Basic Islamic Education.
Media and Journalism.
Happy Married Life.
Islamic Laws of Business
The Magic of Positive Thinking.
Islamic Laws of Employment, Parenting.
Enjoy your Exams.
Home Schooling
Institution Building.
Stress & Anger Management.
Conflict Resolution.
Winning Attitude … Positive Attitude
Public Speaking & Presentation Skills
Career Counseling.
Shariya Compliance.
Strategic Visions.
Bridging Differences.
Public Speaking.
How to Become a Better Teacher?
Training of Trainers
Knowing about Islamic History
Knowing about Quran
Knowing about World
Knowing about Muhammad’s (PBUH) Life
Health & Hygiene
How to Plan a New Year?
Effective Listening & Fast Reading Skills
Set Goals, Achieve Goals
Self Confidence
Leadership Skills
Emotional Intelligence
Business or Job?
Social Entrepreneurship

مندرجہ ذیل کورسز میں 50٪ ڈسکاونٹ
English language

Arabic Language
DIT
ADIT
Shorthand
Beautician
Salai katai
Dirasat Deenia

How be success in your Exam?

امتحان میں شاندار کامیابی کیسے؟؟

آج کل مدارس میں سہ ماہی اور سکولوں میں سالانہ امتحانات ہو رہے ہیں اس وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ امتحان سے متعلق چند باتیں آپ کی خدمت میں پیش کروں تا کہ طلبہ کو فائدہ ہو۔

 امتحان کیوں دیا جاتا ہے ؟

اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ امتحان کیوں دیا جاتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امتحان اس لیے لیا جاتا ہے کہ طالب علم اپنے علم میں پختگی و رسوخ  حاصل کر سکے اور امتحان کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علم میں بیداری اور چستی پیدا ہو جو علم کے اصول اور ضبط میں معاون اور مفید ہے ذیل میں ہم امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے چند امور ذکر کرتے ہیں۔

امتحان کی تیاری کیسے کریں؟؟؟؟

سب سے پہلے تو پچھلی زندگی پر  استغفار کر کے دعا اور محنت سے کام لیا جائے ، دونوں میں سےکسی ایک پر اعتماد نہ کیا جائے

اکثر طلبہ جب امتحان سر پر آجاتا ہے تب امتحان کی تیاری میں لگ جاتے ہیں یہ بالکل غلط طریقہ ہےکیونکہ امتحان کے دن یاد کرنے کے نہیں بلکہ یاد کیے ہوئے کو دہرا کر پختہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔

کامیاب طالب علم اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ امتحان کب آئے گا بلکہ وہ کلاسز کا آغاز ہوتے ہی امتحان کی تیاری شروع کردیتا ہےاور روزانہ کا سبق روز یاد کرتا ہے اس لی طالب علم کو چاہیئے کہ روزانہ جو پڑھے اس کا خلاصہ یاد کر لے اور نظام الاوقات بنا کر محنت کرے اور جتنی محنت اور کوشش کی استطاعت ہو اُتنی محنت کرے حد سے زیادہ تجاوز نہ کرے کہ کھانا ، پینا اور آرام متاثر ہو محنت کے ساتھ ساتھ اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھے زیادہ ٹینشن نہ لے۔

اپنے مزاج کو سمجھنا چاہیئے بعض لوگ تنہائی میں امتحان کی تیاری کو پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ کمبائن سٹڈی کو ترجیح دیتے ہیں تو جیسا مزاج ہو ویسے ہی چلنا چاہیئے امتحان سے ایک مہینہ قبل ہی  روزانہ کے سبق کے ساتھ ہی پچھلے اسباق بھی دوہرانہ شروع کریں اور امتحان کے دنوں میں جس مضمون (سبجیکٹ) کا امتحان ہو تو اس سے متعلق کتاب کا جتنا حصہ کورس میں شامل ہیں اس کو ایک بار ضرور پڑھنا چاہیئے سمجھ کر ہو تو نور علی نور وگرنہ بِلا سمجھے ہی صفحے پر نظر ڈالیں کسی بھی حصے کو آسان یا غیر اہم سمجھ کر نہ چھوڑیں اس کا فائدہ یہ ہو گا اگر امتحان میں آگیا تو کم از کم آپ کو اس کے بارے میں کچھ ہنٹس تو ہونگی جسے لکھ کر آپ تھوڑے بہت مارکس تو حاصل کر لیں گے اس کے بر عکس اگر آپ نے حصہ بالکل دیکھا ہی نہیں ہو تو آپ کے لیے لکھنا اور نمبر لینا بہت مشکل ہو گا اس کے لیے کہا جاتا ہے ۔Some thing is better then nothing

بالکل کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔

جب کتاب ایک مرتبہ مکمل پڑھ لیں تو رات کو  سونے سے پہلے اس کی اہم ابحاث کو ضرور پڑھ لیں اس وقت یاد نہ کریں اور کوشش کریں کہ رات کو جلدی سو جائیں اور پھر صبح جلدی اٹھ کر انہی ابحاث کو دوبارہ دہرائیں امتحان والے دن ناشتہ ضرور کریں بعض طلبہ ناشتہ نہیں کرتے تو پھر پرچے کے دوران کمزوری کی وجہ سے سر چکرانے لگتا ہے امتحان کی تیاری کے لیے اپنی کلاس کے پوزیشن ہولڈر سے یا اپنے سینئر طلبہ یا اساتذہ سے مشورہ کریں پھر وہ جس طرح ہدایات دیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں نیز گزشتہ سالوں کے ماڈل پیپرز کو بھی پیش نظر رکھیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ امتحان میں کسی قسم کے سوالات آتے ہیں اگر ہو سکے تو ایک دو پیپر کو حل کر کے کسی استاد سے چیک کروائیں تا کہ آپ کی تمرین اور مشق ہو جائے اور اپنی غلطیوں کا پتہ چل سکے۔

امتحان کی تیاری کے وقت یہ دعا کرتے رہیں

“اے اللہ ! سوالیہ پرچے میں جو سوالات آئیں گے محض اپنے فضل و کرم سے ان کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما آمین”۔

امتحان گاہ جانے سے پہلے:

 امتحان کے لیے درکار تمام اشیاء مثلاً قلم ، گتہ، رول نمبر سلپ وغیرہ کا اطمینان کر لیں تا کہ امتحان کے دوران پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور احتیاطاً دو قلم اپنے ساتھ رکھیں اور اس بات کا بھی اطمینان کر لیں کہ آپ کے پاس کوئی مشتبہ چیز کوئی پرچی وغیرہ تو جیب میں نہیں تا کہ نگران حضرات کو آپ کے بارے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہ ہو ۔

پرچے والے دن فجر کی نماز پڑھ کر سورہ یٰسین کی تلاوت کریں اور پھر گھر سے روانہ ہونے سے پہلے دو رکعٰت نفل صلوٰۃ الحاجۃ کی نیت سے پڑھیں اور پرچے کی آسانی کے لیے دعا کریں پھر مسنون طریقے سے گھر سے نکل کر مسنون دعا پڑھیں اور روانہ ہو جائیں راستہ بھر منزل پر پہنچنے تک ان مبارک کلمات کا ورد رکھیں۔

یا سبوح ، یا قدوس ، یا غفور ،  یا ودود

عام طور پر طلبہ یہ وقت فضول باتوں میں یا کتاب کو دیکھنے میں صرف کرتے ہیں حالانکہ اس وقت کتاب کو نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے کیونکہ اس مختصر وقت میں کتاب دیکھنے سے ذہنی الجھن ہوتی ہےجس کے غلط اثرات پرچے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔

جب امتحان گاہ میں داخل ہو:

جب امتحان گاہ میں داخل ہو تو آپ کی جو مقررہ جگہ نگران حضرات نے متعین کی ہے اس پر جا کر بیٹھیں اس کے علاوہ دوسری جگہ نہ بیٹھیں ورنہ نگرانوں کی نظر میں آپ مشکوک ہو جائیں گے جوابی پرچے پر کچھ ہدایات لکھی ہوتی ہے انہیں غور سے پڑھیں اور کچھ خالی جگہیں پُر کرنی ہوتی ہے انہیں پُر کریں اس میں بے احتیاطی سے پرچے کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

امتحان گاہ میں کسی سے نہ کوئی بات پوچھیں اور نہ کسی کو کچھ بتائیں سوالیہ پرچہ ملنے تک مسلسل یہ دعا پڑھتے رہیں۔

افوض امری الی اللہ ان اللہ  بصیر بالعباد

جب آپ سوالیہ پرچہ وصول کریں :

تو گیارہ مرتبہ یا ناصر ، یا نصیر ، یا قادر ، یا قدیر پڑھ کر پوری توجہ سے سوالات کو اول سے آخر تک بغور دیکھیں اور یہ عمل بار بار کریں پہلے ہی سوال کو آسان دیکھ کر فوراً لکھنا شروع نہ کریں

ممتحن (ایگزمنر) کی مراد سمجھنے کی کوشش کریں سب سے پہلے اس سوال کا انتخاب کریں جسے آپ پوری تفاصیل کے ساتھ لکھ سکتے ہیں۔

پرچہ کس طرح حل کریں؟؟؟؟

سب سے پہلے یہ سوچیں کہ امتحان کے یہ تین یا چار گھنٹے آپ کی پوری زندگی پر اثر انداز ہونگے لہٰذا آرام آرام سے اور صاف اور خوشخط لکھنے کی کوشش کریں اور ایسے انداز و اسلوب سے لکھیں کہ پرچہ چیک کرنے والا متاثر ہو جائے اور ذہن میں یہ رکھیں کہ آپ کسی کو کوئی چیز سمجھانا چاہتے ہیں اس لیے عنوانات سرخیاں ( ہیڈ لائنز) لگا کر جواب لکھیں تا کہ پرچہ چیک کرنے والے کو سہولت ہو اور وہ نمبر دینے میں فراغ دلی سے کام لے۔

جس زبان میں پرچہ حل کر رہے ہیں اس سے متعلقہ قواعد ، املا اور رموز اوقاف کا خوب خیال کرکھیں۔

پورا سوال لکھنے کی ضرورت نہیں صرف سوال نمبر لکھ کر جواب لکھنا شروع کریں۔ مثلاً (اردو میں) پہلے سوال کا جواب (عربی میں) الجواب عن السوال الاول

(انگلش میں)   Question No.1

جواب کی تفصیل سے پہلے جواب کے اہم اور چیدہ چیدہ نکات کو ترتیب دے کر پورے جواب کو اپنے ذہن میں مکمل مرتب کریں۔ جواب لکھتے وقت ذہن کو صرف اسی سوال تک  منحصر رکھیں جس کا جواب لکھ رہے ہیں دیگر سوالات کے جوابات اس وقت ہرگز ذہن میں نہ سوچیں اس سے لکھا جانے والا سوال متاثر ہو گا اگر کوئی بات ذہن میں نہیں آ رہی تو جگہ چھوڑ کر اس سے اگلی شق (جز) لکھنا شروع کریں اور یاد آنے پر چھوڑی ہوئی جگہ میں تحریر کر دیں کسی عبارت کو مٹانا ہو تو خط تنسیخ (x) لگا کر چھوڑ دیں وقت مقررہ کا خیا ل رکھیں موزوں سے ہٹ کر کوئی بات فضول قسم کے نقش و نگار اور اشعار نہ لکھیں۔ بہتر یہ ہے کہ سیاہ روشنائی کا استعمال کریں جتنے سوالوں کا جواب مطلوب ہے اتنے ہی لکھیں اضافی سوال کا جواب نہ لکھیں اور نہ ہی کسی سوال یا کسی جز کو چھوڑیں ایسا بھی نہ کریں کہ ایک سوال تو تفصیل سے لکھ دیا او ر باقی سوالات چھوڑ دیئے کتاب کے مطابق لفظ بہ لفظ لکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف جواب کا مفہوم واضح کریں۔

دینی مدارس کے امتحان میں اگر کوئی اختلافی مسلہء آ جائے تو پہلے یوں خلاصہ کریں۔

فیہ ثلاثہ مباحث : الاول۔بیان المذاہب، الثانی، بیان ،الادلۃ، الثالث، بیان الاجابۃ عن ادلۃ الائمۃ اسی طرح عصری اداروں کے طلبہ جواب لکھنے سے پہلے خلاصہ لکھیں کہ اس سوال میں فلاں فلاں چیز پوچھی گئی ہے اس کی تعین کرنے کے بعد اس کا جواب تحریر کریں ۔

پرچہ ختم کرنے کے بعد اس پر نظر ثانی ضرور کریں اس سے پرچے میں رہ جانے والے نقص کو دور کیا جا سکتا ہے  اگر اضافی صفحات ہو تو ان اصل پرچے کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر جمع کرائیں اور یاد رکھیں امتحان میں اٹینڈنس (حاضری) ضرور لکھیں ورنہ آپ غیر حاضر شمار ہونگے ۔

امتحان کے بعد کیا کریں؟؟؟؟؟؟

امتحان کے بعد اچھے مارکس حاصل کرنے کے بعد یہ دعا ہر فرض نماز کے بعد (7) مرتبہ پڑھیں۔

یا قادر قدرلی الدرجۃ العلیا بفضلک العظیم

یا اپنی زبان میں یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اچھے نمبروں سے پاس فرمائیں۔

پھر اگر نتیجے میں کم نمبر آئے تو مایوس نہ ہو اور کسی استاد سے بد گمانی یا کسی کی برائی نہ کریں اور نہ ہی پوزیشن حاصل کرنے والے ساتھیوں سے حسد کریں بلکہ اپنی کوتاہیوں پر غور کریں پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ رضا بالتقدیر یعنی اپنی تقدیر پر راضی رہیں اور عزم مصمم، بلند نگاہی اور بلند حوصلگی کے ساتھ مستقل محنت جاری رکھیں۔

تحریر:     محمد افضل کاسی

نظم و ضبط کیا ہے؟

The component element of time management in discipline under the light of Islamic thoughts.

٭محمد افضل کاسی                           ٭٭                   پروفیسر رحمت اللہ صاحب

Abstract                                                                                   

 From the very beginning, Islam has given great importance to discipline. In every facet of life, discipline has a role to play. Today when we delve deep into our lives, we are amazed as to how it has always proved its worth. It has brought the tide of revolution to everyone’s mind. Similarly, the element of discipline saves a society from disruption and instability. It infuses into life satisfaction and contentment. Contrarily, indiscipline and mismanagement give birth to dejection and dissatisfaction.

Time management plays a vital role in the establishment of discipline in a society. Considering the vast importance of time management in the light of discipline, the following article throws a great deal of light on it in the Islamic perspective.                                                              

نظم و ضبط کیا ہے؟

ن + ظ + م  ـ   “نظم ” تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن معنی میں بے پناہ وسعت ہے۔ یعنی کلام موزوں، خوبصورت آہنگ کا مالک ، توازن کا مجموعہ  جو تمام حیات پر حاوی  ہے جس کے بغیر زندگی بے ڈھنگی اور بد صورت ہے۔

ض + ب + ط ـ ­ ” ضبط” تین حروف کا مجموعہ  جس کا مطلب ہے قید، پابندی ، غلامی  جو تمام بے قاعدگیوں  اور بے ضابطگیوں کو کنٹرول میں رکھتا ہے

       لغت کے مطابق :  ضبط سے مراد پاسبانی ، حفاظت ، نگہبانی ، ہوشیاری، بندوبست ، حکومت ، راج، پابند، قبضہ سرکار کو کہتے ہیں جبکہ نظم سے مراد لڑی، موتیوں کو دھاگے میں پرونا، انتظام کرنا وغیرہ۔(1)

       عربی اردو لغت کے مطابق : ضبط سے مراد تحمل ، برداشت ، دستورالعمل ، قاعسہ قانون ۔ جبکہ نظم سے مراد حسن ترتیب ، انتظام ، سلیقہ ۔ نظم و نسق بھی نظم و ضبط  کے تحت ہی آتا ہے ۔ یعنی ضابطے قاعدے قانون کا احترام۔(2)

نظم وضبط میں تنظیم وقت کا کردار

ایک شخص نے اپنے دوست سے سوال کیا، ” دنیا کی چیزوں میں سے کون سی چیز ہے جو سب سے زیادہ  طویل ہے مگر مختصر بھی،  سب سے تیز رفتار بھی ہے اور سست ترین بھی ، سب سے زیادہ تقسیم ہونے والی بھی ہے  اور سب سے زیادہ کھنچ جانے والی بھی ہے ، سب سے زیادہ نظر انداز بھی کی جاتی ہے مگر اس کا افسوس بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے ، ایسی چیز جس کے بغیر کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا ، جو معمولی  چیزوں کو ختم کر دیتی ہے مگر معمولی چیزوں کو دوام بخش دیتی ہے۔”

   دوست کا جواب تھا:

             وقت ۔۔۔۔ وقت سے زیادہ  طویل کوئی چیز نہیں ، کیوں کہ یہ ابدیت کا پیمانہ ہے ۔ وقت سے  مختصر کوئی شے نہیں ، کیوں کہ یہ ہماری آرزوں اور منصوبوں کی تکمیل کے لئے  ہمیشہ کافی   ثابت  ہوتا ہے  وقت سے زیادہ سست رفتار کوئی  چیز نہیں  ، اس کے لئے جو کسی امید اور انتظار میں ہو ۔ وقت سے زیادہ تیز رفتار کوئی چیزنہیں اس کے لئے جو خوشی اور مسرت کے لمحات میں ہو ۔ وقت طول میں ابدیت تک جا پہنچتا ہے اور چھوٹا ہونے کی بات ہو تو سیکنڈ کے ہزارویں کیا کروڑوں اربوں حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے ۔ہر شخص اسے نظر انداز کرتا ہے  اور سب ہی اس کے ضائع ہونے پر افسوس کرتے ہیں۔ وقت کے بغیر کچھ  نہیں کیا جا سکتا ہر معمولی واقعے کو آئندہ نسل میں منتقل ہونے سے قبل ہی طاق نسیاٖں کے حوالےکر دیتا ہے اور ہر ایسے عمل کو لا فانی بنا دیتا ہے جو واقعی عظیم ہو۔”  (3)

       وقت ایک بہتا ہوا دریا ہے ، جس طرح دریا کی گزری ہوئی لہریں واپس نہیں ہو سکتیں،اسی طرح گیا ہوا وقت بھی کھبی دوبارہ ہاتھ نہیں آ سکتا ۔ وقت چلچلاتی دھوپ میں رکھی کسی برف  کی سل کی مانند  ہے جو ہر آن پگھلتی ہی چلی جا رہی ہے، اور ایک سفر مسلسل کی طرح رواں دواں ہے کہ کہیں کوئی پڑاو یا ٹھراونظر نہیں آتا ۔یا اسے یوں تعبیر کریں کہ، وقت ، روئی کے گالوں کی طرح ہے، عقل و حکمت کے چرخے میں کات کر اس کے قیمتی پارچہ جات اگر بنا لئے گئے تو وہ کام میں آ جائیں گے ، ورنہ غفلت و جہالت کی آندھیاں اسے اڑاکر کہیں کا کہیں پھینک دیں گے۔

وقت کیا ہے ؟اور اس کی خصوصیات:

    وقت بڑی تیزی کے ساتھ گزر جاتا ہے ۔ وقت ایک تندو تیز ہوا کی مانند ہے جو بادل کی طرح تیزی سے گزر جاتا ہے ۔ کبھی یہ خوشی کے ساتھ گزر جاتا ہے تو کبھی یہ غم کے ساتھ ۔ وقت ایک ایسی چیز ہے جسے نہ ہم دیکھ سکتے ہیں اور نہ چھو سکتے ہیں۔اسے نہ ہم خرید سکتے ہیں اور نہ ہی فروخت کر سکتے ہیں۔وقت ایسی کوئی مادی چیز بھی نہیں ہے جسے ہم بعد میں استعمال کرنے کے لئے ریفریجریٹر یا ڈیپ فریزر میں رکھ کر بعد میں گرم کر کے استعمال کر سکیں۔  اسے اگر استعمال نہ کیا گیا تو یہ بغیر کسی حرکت اور عمل کے ضائع ہو  جائے گا۔وقت کو بچا بچا کر بھی استعمال نہیں کر سکتے بلکہ انسان میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ جو وقت اسے میسر ہو اسے بہترین طریقے سے استعمال کر سکے۔

اسے نہ ہم کرایہ پر لے سکتے ہیں اور نہ ہی زندگی کے مقررہ وقت سے زیادہ استعمال کر سکتے ہیں۔وقت کی رسد غیر لچک دار ہے۔ اور یہ رسد طلب کے مطابق نہیں مل سکتی۔وقت کی کوئی بھی قیمت نہیں ہے۔ البتہ اس وقت میں فراہم کی جانے والی خدمات کا معاوضہ دیا جاتا ہے ۔

وقت کا کوئی بھی نعم البدل بھی نہیں ہے۔وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔انسان کے ہاتھ میں سب سے زیادہ قیمتی چیز وقت کی صورت میں ہی ہے۔

 ہر کام اور ہر عمل کے لئے وقت درکار ہے اورانسان کو ہمیشہ اس بات کی شکایت رہتی ہے کہ۔۔۔۔ وقت فرصت ہے کہاں۔ کام ابھی باقی ہے۔(4)

وقت کی اقسام:

        یہ ہماری خام خیالی ہے کہ ہمارے  پاس روز کے 24 گھنٹے ہیں جنھیں ہمیں استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم مندرجہ ذیل پر غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہمارے پاس صرف 10 تا 11 گھنٹے ہیں جنہیں ہم استعمال کرنے کے سلسلے میں کوئی صوابدیدی یا اختیاری عمل کر سکتے ہیں۔           

کمٹڈ ٹائم ۔ اسکول ۔ ورک، خاندان۔ مقاصد کے لئے ۔ آپ کو روزانہ تعلیم کے لئے سکول ، کالج  یا یونیورسٹی جانا ہے۔

مین ٹیننس ٹائم، زندگی کی بقاء ، آرام، ضروریات کے لئے وقت۔

اختیاری وقت، وہ وقت جو آپ دفتر یا روزگار کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی حد تک صوابدیدی انداز سے استعمال کرتے ہیں۔(5)

وقت کی اہمیت:

      وقت کی قدروقیمت کے حوالے سے جو بات کہنی ہے وہ یہ کہ وقت ایک بے مثال ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ یہ ایک Unique Resource ہے۔ یہ فوری ضائع ہونے والی ایسی چیز ہے جسے نہ چھوا جا سکتا ہے اور نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ اسے کسی طریقے سے محفوظ اور ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ وقت ایک ایسی نعمت ہے  جسے نہ کرایہ پر لیا جا سکتا ہے اور نہ کرایہ پر دیا جا سکتا ہے۔وقت گزرنے کے بعد بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ وقت آنے پر بیشتر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ گزرے ہوئے لمحات کو پکڑا نہیں جا سکتا۔ دو اوقات کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا کر کے ان میں فاصلہ پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ تسلسل کے ساتھ آرہا ہے اور تسلسل کے ساتھ جا رہا ہے۔ جس انداز سے سورج اور چاند کو ان کے امور سے اور ان کی گردش سے روکا نہیں جا سکتا ، اسی انداز سے وقت کے تسلسل کو روکا نہیں جا سکتا۔

    انسان چاہے امیر ہو یا غریب ہو، وہ جب روزانہ اٹھتا ہے تو اسے 1440 منٹ کی تھیلی دے دی جاتی ہے جو اس وقت کو جتنے اچھے اور بہتر انداز میں استعمال کرتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہوتا ہے ۔ جس نے اسے استعمال نہیں کیا اس کا وقت خرچ ہو جاتا ہے اور جو وقت خرچ ہو جاتا ہے وہ واپس لوٹ کر نہیں آتا اور نہ ہی اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ جو وقت آیا ہی نہیں ہے اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے ،اس کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے مگر اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

    وقت کی سپلائی یعنی اس کی رسد مقرر ہے یعنی جتنی زندگی ہے اتنا ہی وقت دیا گیا ہے ہر چیز کے لئے وقت کی ضرورت ہے ہر کام کسی نہ کسی وقت پر ہوتا ہے۔ ہر کام اور ہر سرگرمی کے لئے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔  انسان کے پاس وقت کو بہتر استعمال کرنے کے وسائل بھی بہت کم ہیں  اسے ہمیشہ وقت کی کمی کی شکایت رہتی ہے ۔ وہ بہت سارے کام فرصت کے اوقات میں کرنا  چاہتا ہے لیکن اسے اپنی زندگی میں کبھی فرصت نہیں ملتی۔  فرصت تو شاید قبر میں ملے، لیکن قبر عمل کی جگہ نہیں ہے۔

      ہم نے اپنے آپ کو دنیا کے کاموں میں اتنا الجھایا ہوا ہے کہ ہمیں دنیا کی چیزوں کے علاوہ اور کوئی شے نظر نہیں آتی جبکہ حال یہ ہے کہ ہم ہر اگلےلمحے اپنی زندگی کو کم کرتے جا رہے ہیں۔ اور ہمیں موت کا بھی احساس نہیں ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کے ہر دن کو آخری دن سمجھے اور ہر لمحے جواب دہی کے احساس کے ساتھ وقت کو گزارنےکی کوشش کرے تو بہت سارے کام اس احساس کے باعث قوت عمل پیداہونے  کی وجہ سے پورے ہو جائیں گے۔

    وقت ایک ایسی چیز ہے جسے ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا اسے بازار میں پھلوں اور سبزیوں کی طرح خرید کر فریج میں نہیں رکھا جا سکتا یہ جیسے ہی آتا ہے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے ، گھڑی کی طرف دیکھیے کتنی تیزی کے ساتھ زندگی کے لمحات گزر رہے ہیں ۔ ذرا  سوچئے تو سہی ، آج صبح اٹھے تھے اور اب تک کتنے گھنٹے ، کتنے منٹ اور کتنے سیکنڈ خرچ ہو چکے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ موت کی طرف جا رہے ہیں اور آخرت کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اس کے لئے ہم نے کتنی تیاری کی ہے اس کا احساس شاید ہمیں نہیں ہے۔

 ہر انساس کے پاس جو زندگی ہے وہ آج کی زندگی ہے یعنی بس آج کا دن ہے ۔ لیکن آج کے دن کو تو ہم نے دفتر ، کاروبار،ٹی وی اور دولت کے سمیٹنے پر لگا رکھا ہے ۔ ہم میز کرسیوں ، نوٹس ، فائلوں، خلاصوں اور خرید و فروخت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں کہ یہ زندگی ہے حالانکہ زندگی اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔(6)

 وقت کی تہہ میں افراد اور قوموں کی ترقیوں کا راز مضمر ہے:

        وقت زندہ قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ وقت افراد اور قوموں کا سرمایہ ہے ، ترقی کی وہ راہیں جو اس سرمایہ کے ٹھیک استعمال ہی کی بدولت طے ہو سکتی ہیں اور انہی اقوام کی رہ گزر بن سکتی ہیں جو اس گرانمایہ  پونجی کو صحیح استعمال کرتی ہیں فرد و معاشرے کا جزو ہے اور افراد ہی کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہوتی ہے۔(7)

بقول اقبال:         افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر                                           ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ (8)

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوموں کے عروج و زوال میں “وقت” نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے جو قومیں وقت کے ساتھ دوستی رچاتی ہیں اور اپنی زندگی کے شام و سحر کو وقت کا پابند کر لیتی ہیں ، وہ ستاروں پر کمندیں ڑال سکتی ہیں، صحراوں کو گلشن میں تبدیل کر سکتی ہیں، فضاوں پر قبضہ جما سکتی ہیں، عناصر کو مسخر کر سکتی ہیں، پہاڑوں کے جگر پاش پاش کر سکتی ہیں اور زمانے کے زمام قیادت سنبھال سکتی ہیں۔ مسلمانوں کی درخشاں تاریخ اس پر گواہ ہے۔ (9)

بقول اقبال:                   نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا                                   کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں       

                                     قلندرانہ  ادائیں   سکندرانہ    جلال                                      یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں(10)

لیکن جو قومیں وقت کو ایک  بیکار چیز سمجھ کر یوں ہی گنواتی رہتی ہیں تو وقت انہیں ذلت کی اتھاہ گہراہیوں میں ایسا دھکیل دیتا ہے کہ دور دور تک کھوجنے سے ان کا نام و نشان نہیں ملتا۔ پھر وہ غلامی کی زندگی بسر کرنے پر  مجبور ہو جاتی ہیں۔ اور وقت کا ضیاع ان کے ہاتھوں میں کشکول گدائی تھما دیتا ہے ۔ آج امت مسلمہ کی حالت زار بھی ڈکھی چھپی نہیں ہے۔

بقول اقبال:                                     وائے نا کا می متاع کارواں جاتا رہا                                             کارواں کے دل سے احساس زباں جاتا رہا  (11)

بعض علماء فرماتے ہیں کہ زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہے۔ جب ان میں سے ایک سانس گزر جاتا ہے  تو عمر کا ایک جزء کم ہو جاتا ہے۔

        حق تعالی نے ہر انسان کو اس کی عمر کے اوقات عزیز کا بے بہا سرمایہ دے کر ایک تجارت پر لگا دیا ہے کہ وہ  عقل و شعور سے کام لے اور اس سرمایہ کو خالص نفع بخش کاموں میں لگائے تو اس کے منافع کی کوئی حد نہیں رہتی اور اگر اس کے خلاف کسی مضرت رساں  کام میں لگا دیا تو نفع کی  تو کیا امید ہوتی،  یہ راس المال بھی ضائع ہو جاتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ نفع اور راس المال ہاتھ سے جاتا رہا، بلکہ اس پر سینکڑوں جرائم  کی سزا عائد ہو جاتی ہے اور کسی نے اس سرمایہ کو نہ کسی نفع بخش کام میں لگایا نہ مضرت رساں میں، تو کم سے کم یہ خسارہ تو  لازمی ہی ہے کہ اس کا نفع اور راس المال دونوں ضائع  ہو گئے۔ (12)

وقت کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:

پہلی آیت:وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا(13)

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایسا بنا یا کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے چلےآتے ہیں(مگر یہ ساری باتیں) اس شخص کے لیے (کارمد ہیں )جو نصیحت کا ارادہ رکھتا ہو یا شکر بجالانا چاہتا ہو۔

علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے دن ورات کو اپنے بندو ں کی عبا دت  کی خاطر ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے بنایا ؛کہ اگر رات کو کوئی عمل اس  سے چھوٹ جائے تو پھر دن کو وہ کرسکے اور اگر دن کو چھوٹ جائے تورات کو وہ کرسکے۔(14)۔

جس کاحاصل یہ ہے کہ انسان کو چاہیے دن ورات  کو عمل میں  لگا ئے اگر کبھی دن کی فرصت  ہاتھ سےفوت ہوجائے  تو رات کو اس کمی کا ازلہ کرے اور اگر رات  کو فوت ہو جائے توپھر دن میں  اس کا ازالہ کرے۔

علامہ زمحشری اپنی مشہور تفسیر “الکشاف”میں اس آیت کے تحت  لکھتے ہیں:

انسان کو چاہیے کہ ہروقت  اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتا رہے :رات کو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو چین و سکون کا ذریعہ بنا یا اور دن کو اس لیے کہ اس کو تصرف اور عمل کے لیے مقرر کیا ۔(15)حاصل یہ کہ دن ورات دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور ضائع ہونے  نہ دیا جائے ۔

دوسر ی  آیت:وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا (1) وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا (2) وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا (3) وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا۔۔۔(16)

ترجمہ:قسم ہے سو رج کی اور اس کی پھیلی ہو ئی دھوپ کی ،اور چاند کی جب سورج کے پیچھے  پیچھے آئے ،اور دن کی جب وہ سو رج کا جلوہ دکھائے ،اور رات کی جب  وہ اس پر چھاکر اس کو چھپا لے۔(آسان ترجمہ قرآن)

تیسری آیت: وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (1) وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى ۔۔۔۔۔۔ (17)ترجمہ:قسم  ہے رات کی جب وہ چھا جائے ،اور دن کی جب اس کااجالا پھیل جائے ۔(آسان ترجمہ قرآن)

چوتھی آیت :وَالضُّحَى (1) وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى۔۔۔(18)۔ترجمہ:(اے پیغمبر۔۔!) قسم ہے چڑھے دن کی روشنی کی ،اور رات کی   جب اس کا اند ھیرا بیٹھ جائے ۔(آسان ترجمہ قرآن)

پانچویں آیت: وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ ۔۔۔(19)ترجمہ:قسم ہے زمانہ کی،انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے ۔

تشریح:دیکھئے ۔۔! مذکورہ بالا چار آیتوں میں  اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے :دن کی قسم ،رات کی قسم ،چاشت کے وقت کی قسم اور زمانہ کی قسم وغیر ہ ۔یہ قسمیں  وقت کی اہمیت   اور عظمت  اجاگر کرتی ہیں  اور پکار پکار کر انسان کو عمرِعزیز کی گزرتی لہروں سے  سے نفع اٹھانے  کی طرف تو جہ دلاتی ہیں۔

وقت کی اہمیت احادیث کی روشنی میں:

پہلی حدیث :عن عمرو بن ميمون أن النبي ( ﷺ) قال لرجل :إغتنم خمسا قبل خمس : حياتك قبل موتك ، وفراغك قبل شغلك ، وغناك قبل فقرك ، وشبابك قبل هرمك ، وصحتك قبل سقمك(20)(المصنف لإبن أبي شيبه:ص:134)

ترجمہ:پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھئے۔۔! موت سے پہلے زندگی کو، بیماری سے پہلے صحت کو،  مشغولیت سے پہلے فراغت کو،بڑھا پے سے پہلے جوانی کو اور فقر سے پہلے مالداری کو۔

پانچ چیزوں کی قدر کریں:

زندگی کی قدر کریں۔۔۔!

موت و حیات دونوں اگر چہ  اللہ  کی طرف سے ہیں ،لیکن زندگی ایسی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ  نے فی الحال  انسان کو عطاکر رکھاہےاور جب  تک یہ  روح انسان  کے جسم میں  رواں  دواں ہو اس وقت تک انسان  ہر دلعزیز ہوتا ہے لیکن جیسے  اس کی روح پر واز کر جاتی ہے تو اس  ہڈیوں کے ڈانچے کو خونی اور قریبی رشتہ دار بھی گھر میں  دیر تک رکھنے کو تیار نہیں ہو تے ہیں اور ہر ایک کی یہ کو شش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد اس کا جنا ز نکال کر قبر تک پہنچا یا جائے۔۔۔  لہذ ا انسان  کو چاہیے  کہ  موت آنے سے پہلے پہلے اس مختصر سی زندگی کو اعمال ِ صالحہ  ،آخرت کی تیاری، اصلاحِ امت ،اقامت ِ دین  اور فلاح ِ دارین میں صرف کرے کیونکہ جب موت آئے گی تو انسان  تمام اعمال سے ہمیشہ  کے لیے محروم ہوجاتا ہے ۔پھر  یہ ندامت اور پچھتاوا کچھ  کام نہیں دے گا۔

صحت کی قدر کریں۔۔۔!

صحت ایک ایسی دو لت اور نعمت ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگا ئی جاسکتی ہے اور اس کی قدر انسان کو اس وقت معلوم ہوجاتی  ہے جب   وہ  (اللہ نہ کرے) کسی ایسی  بیمار ی کا شکار ہوجائے کہ اٹھنے بیٹھنے،کھانے  پینے اور حاجت  پوری  کرنے  میں دوسر وں کا محتاج ہو جائے یا  ہسپتال میں پڑے  کنسر ،شوگر ،یرقان اور ٹی بی کے مریضوں کو دیکھ لے  ،لیکن عقلمند  اور ہو شیار انسا ن وہ  ہے جو بیماری سے پہلے پہلے  اس  سے  فائدہ اٹھائے  اور اس کو آخرت کی تیاری ،اصلاح ِ امت اور خدمت ِ دین کے لیے وقف کرے۔

فراغت کی قدر کریں۔۔۔!

یہ  انسان کے لیے ایک بیش بہا  ، گرانقد ر  اور سبق آموز نصیحت  ہےکہ انسان کو چا ہیئے  کہ فراغت  اور یکسوئی کو قدر کی نگاہ سے دیکھے  اور اس کو اللہ کی طرف سے ایک عظیم نعمت سمجھ کر  پھونک  پھو نک کر خرچ کرے ۔

انسا ن کو چا ہیے کہ  بڑھاپے سے پہلے پہلے اپنی جوانی کو غنیمت  سمجھے۔زندگی میں “جوانی “عمر کا ایک ایسا حصہ ہے  جس میں اللہ  تعالیٰ  کی طرف سے دی ہو ئی نعمتیں کمال کو  پہنچی ہو ئی ہو تی ہیں اور اس عمر میں انسا ن ہر میدان میں قد م رکھنے کا اہل ہو تا ہے ۔آپ تاریخ اٹھا کر دیکھے تو دنیا میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے  آپ کو نوجوان ہی  ملیں گے چنا نچہ حضرت ابوبکر الصدیق کی عمر اڑتالیس سال ،حضرت عمر فارو ق کی عمر ستا ئیس سال ، حضر ت علی کی عمر دس سال ۔۔۔یہ نوجوانوں کی ایک جماعت ہے جہنوں پوری دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔

آپﷺ نے اپنی آخر ی عمر میں جو لشکر تیار کیا اور اس  پر جس صحابی کو امیر مقرر کیاتھا ،وہ  تھے “اسامہ بن زید”اور اس وقت  ان کی عمر تھی اٹھارہ سال  اور اسی طر ح محمد بن قاسم  نے سترہ سال کی عمر میں ایک بڑ ے علاقوں کو فتح کیا، ان اٹھارہ اور سترہ سا ل کے بچے نے فوج کو سنبھالا اور  سینکڑوں میل تک اسلام پھیلایا ،کیا آج سترہ سال کا  کوئی بچہ  گھر سنبھال سکتا ہے ۔۔۔۔؟؟؟

مالداری کی قدر کریں۔۔۔!

ازروئے شر یعت مال کمانا کوئی   ممنوع  کام نہیں،البتہ مال کی محبت  مذموم  اور منع ہے کہ انسان   جب “حب ِمال” کے مرض میں   مبتلا ہوجاتاہے تو پھر وہ نہ حقوق العبا د(قرض،بیوی نفقہ واجبہ وغیرہ ) کی ادا ئیگی کا خیال رکھتا ہے اور نہ حقوق اللہ (زکوٰۃ،حج وغیرہ)کی ادائیگی کا سو چتاہے، بلکہ اس کی نظر صرف مال و دولت بڑھانے پر ہوتی ہے  اور ہمیشہ سرمایہ کاری کے منصوبے سو چتارہتا ہے ،حالانکہ انسان کو چاہیئے تھاکہ یہ اللہ کا دیاہوا رزق اللہ تعالیٰ کے راستے میں  خرچ کرتا اور اس مالداری  کی قدر کرتا ،کیونکہ غنی کو معلوم نہیں کہ وہ کب  تک غنی بن کر زند گی گزار ے گا؟ اور کب تک یہ مال ،یہ گاڑی ،یہ بنگلہ  اور یہ راحت  وآرام  کا سامان  چلے گا ؟ اور فقیر کو معلوم نہیں کہ  وہ کب فقر و فاقہ اور غربت و تنگدستی  کے جال سے نکل کر غنی بن جائے گا؟ لہذا جن لو گوں کو اللہ تعالیٰ نے مال دیاہو اہےان کو چاہیئے کہ وہ اپنے ما ل کو اشاعتِ خیر ،ترویج ِ دین ،جہاد فی سبیل اللہ ،مدارس کے قیام ،مساجد کی تعمیر  اور غریبوں کی مدد میں خر چ کرنے کو سعادت  سمجھیں۔

دوسری حدیث:نعمتان مبغون فیھما کثیر من الناس:الصحۃ والفراغۃ(صحیح البخاری،کتاب الرقاق)

ترجمہ:دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سارے لوگ دھوکے کا شکار ہیں:ایک صحت اور دوسری فراغت۔یعنی ان دو چیزوں کو وہ نعمت سمجھتا نہیں۔

تیسری حدیث:كان ابن عمر يقول: ” إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح , وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء , وخذ من صحتك لمرضك , ومن حياتك لموتك .(21)(رواه البخاري)

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر  فر ماتے ہیں:جب شام ہوجائے تو آپ صبح کا انتظار نہ کرے اور جب صبح ہو جائے تو پھر شام کا انتظار نہ کرے  اور بیماری سے  پہلے پہلے صحت سے فائدہ اٹھا ئے اور مرنے سے پہلے پہلے زندگی کی قدر کرے۔

مطلب:مطلب یہ کہ جب شام ہوجائے تو اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے  اعمال کرے صبح کا  انتظار نہ کرے  کہ کل صبح میں فلان کام کروں گاکیونکہ  معلوم نہیں کہ کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے  اور اسی طرح جب صبح ہو جائے تو اسی میں اعمال کا سلسلہ شروع کرے شام کے انتظار میں نہ بیٹھے ۔

چوتھی حدیث:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « لاَ تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمْرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَا فَعَلَ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَا أَبْلاَهُ »(22)( أخرجه الترمذي)

ترجمہ:قیامت کے دن انسان کے  قد م اس وقت تک  اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتے ہیں جب تک اس سے (پانچ چیزوں کے بارے میں نہ پو چھاجائے کہ زندگی کہاں گزاری۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت کی اہمیت صحابہ کرام کی نظر میں:

حضرت ابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ یہ دعاء کیا کر تے تھے:

الّلھم لاتدعْنا  فی غمر ۃٍ ولاتاخذْنا علی غرّۃٍ ولاتجْعلْنا مِن الغافلین۔(23)

ترجمہ: اے اللہ ۔۔! ہمیں شدت میں نہ چھوڑیئے اور ہمیں غفلت  کی حالت میں نہ پکڑے اور ہم کو غفلت والو ں میں سے نہ بنا ئے۔

حضرت عمر فارو ق  رضی اللہ عنہ یہ دعاء مانگا  کر تے تھے:

الّلھم اِنّا نسالک صلاحَ السّاعات والبر کۃَ فی الاوقات۔(24)

ترجمہ: اے اللہ ۔۔! ہم آپ سے زندگی کی گھڑیوں  درستگی اور اوقات میں برکت  کا سوال کر تے ہیں۔

حضرت علی   رضی اللہ عنہ یہ جملہ ارشاد فر ماتے  تھے:

الایّام صحائفُ اعمارکم فخلِّدُو ھا صالح اعمالکم۔

ترجمہ: یہ دن تمہاری عمر وں  کے صحیفے ہیں ،اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔(25)

وقت کی اہمیت ائمہ عظام کی نظر میں:

حضرت  حسن بصری رحمہ اللہ فر ماتے ہیں:

یا ابن اٰدم  اِنّما انتَ  ایّام ،فاذا ذاھبٌ یومٌ ذھبَ بعضک۔

اے ابن آدم۔۔۔! تودنوں ہی کا مجموعہ ہے  جب ایک دن گز ر جائے تو یوں سمجھ کہ تیرا ایک حصہ بھی گزر گیا۔

ترجمہ:علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ اپنے صاحبزادوں نصیحت کر تے ہو ئے لکھتے ہیں :

اِنّ الایام تبسط ساعاتٍ والساعاتُ تبسط انفاساً و کلّ نفسٍ خزانۃٌ فاحذر ان یذھبَ نفسٌ بغیر شیئٍ۔۔۔۔

ترجمہ:زندگی  کے دن  چند گھنٹوں  اور گھنٹے چند گھڑیوں کے نام ہیں،زندگی کا ہر سانس ایک بیش بہا خزانہ ہے  لہذا ایک ایک سانس کی قدر کیجئے کہ  کہیں بغیر فائدہ  کے نہ گزرے۔(26)

اب تک کی تحریر سے ہمیں بخوبی اندازہ ہو گیا کہ اگرہم نے دنیا آخرت کی کامیابیاں حاصل کرنی ہیں تو ہمیں اپنے وقت کی تنظیم کرنی ہو گی ۔ کیونکہ زندگی میں نظم و ضبط کے لئے وقت کی تنظیم لازمی ہے۔

تنظیم وقت (ٹائم منیجمنٹ ) کیا ہے؟

 تنظیم وقت کا مطلب ہے کہ بڑی منزل اور مستقبل کی تصویر کی روشنی میں زندگی کی مصروفیا ت میں ترجیحات کا تعین  کر کے ان پر عمل کے لیے  پرعزم  رہنا۔

تنظیم وقت (ٹائم منیجمنٹ ) کی ضرورت:

     تنظیم وقت کی ضرورت کو سمجھنے کے لئے آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔  فرض کریں ایک تالاب ہے ۔ اور جب تالاب کی بات ہوتی ہے  تو یہی تصور ہوتا ہے کہ وہ پانی سے بھرا ہوا ہے ۔ یہاں دو افراد ہیں مسٹر اے اورمسٹر بی ان میں سے ایک کو تیرنا آتا ہے  اور ایک کو تیرنا نہیں آتا۔ تالاب کوعبور کر کے دوسرے کنارے پر پہنچنا ہے ۔ اب ان میں سے کون پہلے پہنچے گا؟  بلاشبہ  دوسرے کنارےتک پہلے وہی پہنچے گا جس کو اس کی تربیت حاصل ہے اور دوسرا شخص جو تربیت یافتہ نہیں ہے شاید درمیان میں ہی رہ جائے۔ یہ ہے ٹائم مینجمنٹ کی تربیت کی ضرورت۔(27

تنظیم وقت (ٹائم منیجمنٹ )کی تربیت:

      جو لوگ ٹائم مینجمنٹ کی تربیت حاصل کرتے ہیں ۔ دیکھاگیا ہے کہ عموما انہیں اپنی عادات بدلنے میں30 دن لگتے ہیں پھر جو لوگ ٹائم مینجمنٹ کی تربیت حاصل کر لیتے ہیں اور اس تربیت کو اپنی زندگی میں عملا بھی اپنا لیتے ہیں انہیں اس کے فوائد بہت زیادہ ملتے ہیں۔

     وہ کس طریقے سے؟؟؟اس کی مثال دی جاتی ہے چائینز بانس کے پودے یا درخت سے بانس کے ان پودوں کی کاشت کے لئے چار سال تک پانی دینے کے باوجود پودوں کاقد صرف ایک فٹ بڑھتا ہے لیکن پانچویں سال میں جا کر 80 فٹ طویل تنے نکلتے ہیں ، تو جو لوگ ٹائم مینجمنٹ کی تربیت حاصل کرتے ہیں وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سے فائدہ کیا ہو گا ؟ شروع کے چند ایام میں یا چند ہفتوں میں آپ کو یہ محسوس ہو گا کہ کوئی فائدہ نہیں ہو رہا اور محنت تکلیف دہ ہے لیکن اس کے بعد آپ کی زندگی منظم ہو جائے گی اور آپ کی زندگی میں  نظم وضبط آ جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے فوائد آپ کو بہت بڑے انعامات کی صورت میں ملیں گے۔(28)

تنظیم وقت کے فوائد:         ٹائم منیجمنٹ کی تربیت سے پہلا فائدہ جو آپ کو نظر آئے گا یہ کہ آپ میں دستیاب وقت کو موثر طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔ہمارے پاس ہر روز 1440 منٹ ہوتے ہیں ۔ اس وقت کو ہم بہتر اور اچھے طریقے سے استعمال کر سکیں گے۔ یہ ہے پہلا فائدہ ٹائم منیجمنٹ کا۔      

      دوسرا فائدہ یہ ہے کہ روزانہ کی زندگی میں ہمارے پاس جو وقت دستیاب ہوتا ہے اس کو بہتر طریقے سے استعمال کر کے بڑھا سکتے ہیں۔ رہیں گے تو 24 گھنٹے ہی، لیکن اس کی تربیت کے ذریعے ہم بہت سارا وقت جو یہاں وہاں ضائع کرتے ہیں بچا لیں گے۔ جیسے آپ کو اگر روز کی خرچی ( پاکٹ منی )  ملتی ہے  تو خرچی ملنے کے بعد آپ اسے مختلف کھیل تماشوں میں اور لاٹریوں میں خرچ کر دیتے ہیں ،لیکن اس رقم کو اگر آپ بچالیں تو اس رقم کو آپ کھانے پینے کی چیزوں پر اور کتابوں کے خریدنے پر لگا سکتے ہیں ۔ اس انداز سے اس تربیت کے ذریعے اور اس پروگرام کے ذریعے سے آپ کی یہ تربیت ہو جائے گی کہ آپ اپنے وقت کو فضول چیزوں سے بچا کر اچھی چیزوں میں لگائیں گے اور آپ کو احساس ہو گا کہ آپ کا وقت اچھے اور بہتر طریقے سے استعمال ہو رہا ہے۔

   تیسرا فائدہ یہ کہ ٹائم منیجمنٹ کے اصول سیکھ کر اپنی زندگی کو منظم کر کے ، اپنے آپ کو منظم ( سیلف آرگنائز ) کر کے آپ اپنی زندگی کے  جومقاصد (Goals) اور اہداف (Deadlines) ہیں، وہ بہت آسانی کے ساتھ حل کر سکیں گے۔ اس لئے کہ آپ کی تربیت ہو جا ئے گی اس تیراک کی مانند، جس کو تیرنا آتا تھا اور اس کو منزل پر پہنچنا آسان ہو گیا۔ اور جس کو تیرنا نہیں آتا تھا وہ ڈوب گیا۔

     چوتھا فائدہ ٹائم منیجمنٹ کا یہ ہے کہ آدمی کو ایک سکون ملتا ہے  ٹینشن اور اسٹریس کی کمی ہو جاتی ہے۔ ورنہ عام زندگی میں انسان کی زندگی ایسی گزر رہی ہے جیسے دما غ کے ٹکڑے Pieces of Mind ہو رہے ہوں۔ اس بات کی امید ہے کہ ٹائم منیجمنٹ کے ذریعے سے آپ کو سکون Peace of Mind نصیب ہو جائے گا  اور نتیجہ یہ نکلے گا  کہ آپ اپنے ارد گرد کے ماحول میں ایک موثر شخصیت کے طور پر ابھریں گے۔ ایک ایسے فرد کے طور پر جو اپنے نصب العین کو، اپنے مقاصد اور اہداف کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے اور اپنی زندگی کے مقاصد حاصل کر رہا ہے ۔ اورجو بھی کام وہ کر رہا ہے وہ نتیجہ خیز( Productive)  ثا بت ہو رہے ہیں۔

    اور یہ بھی ایک نتیجہ ہو گا ٹائم منیجمنٹ کا  کہ آپ کو سکون ملے گا ، آپ کے ادارے یا تنظیم کے اندر ( Productivity ) آئے گی۔ آپ طالب علم ہے تو آپ ٹائم کو بہتر اور اچھے طریقے سے استعمال کریں گے  اس بات کے کافی امکانات ہیں کہ آپ کا مطالعہ اور بھی زیادہ مربوط و منظم(Structured ) ہو گا۔  اگر آپ خاتون ہیں تو آپ کو بھی آگے بڑھنے کی تیاری کا وقت مل جائے گا اور خوشی کی صورت میں نتیجہ سامنے آئے گا۔ آپ کا ٹینشن ( ذہنی اضطراب ) کم ہو گا۔ آپ اپنے آپ پر ، اپنے گھر پر اور اپنی آرگنائزیشن میں اچھی طرح کنٹرول کر سکیں گے۔

یہ تھے ٹائم منیجمنٹ کے چند نمایاں فوائد۔(29)

 تنظیم وقت کے مراحل:

    تنظیم وقت کا پہلا مرحلہ: جائزہ لینا: 

    تنظیم وقت کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں کہ ہمارا وقت کہاں ضائع ہو رہا ہے ذیل میں ہم چند چیزوں ، مقامات و شخصیات کا ذکر کرتے ہیں جو وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔

وقت ضائع کرنے والے چند بڑےعوامل:

بہت سے کام بیک وقت کرنا۔انکار کرنے کی صلاحیت کا نہ ہونا۔غیر متوقع مہمان۔عدم احتساب۔منصوبہ بندی کی کمی۔عملہ کی کمی۔نا مکمل معلومات ۔غیر موثرتفویض۔کام ادھورا چھوڑنا۔بحران پیدا کر کے کام کرنا۔دفتری اجلاس۔کاغذی کاروائی۔ذاتی زندگی میں بے ترتیبی۔غیر موثر ابلاغ۔سستی، کاہلی اور ٹال مٹول۔میل جول کا حلقہ۔ٹیلی فون یا موبائل فون۔بلا ضرورت سفر۔سماجی تقریبات کا دیر سے آغاز۔احساس برتری۔غیر ضروری سماجی تقریبات۔ترجیحات کا تعین نہ کرنا۔وقت پر چیزوں کا نہ ملنا۔کام کو خود اور اپنے طریقے سے کرنے پر اصرار کرنا۔توجہ سے نہ سننا۔ہر کام میں شرکت کرنا۔مصروفیات طاری رکھنا۔احساس کا نہ ہونا۔اوج کمال کے متلاشی لوگ۔اپنی ہی آواز سے مسحور لوگ۔طاقت و اختیار سے متاثر ہونا۔انا پرست۔توجہ کی کمی۔اسٹڈی کرنے کے طریقے کا نہ آنا۔امتحانی پرچہ حل کرنے کا سلیقہ نہ آنا۔بے کار چیزوں کا مطالعہ کرنا۔مطالعے کے نوٹس تیار نہ کرنا۔منفی انداز فکر۔اپنی زندگی میں امنگ کی کمی، متحرک ہونے کی کمی۔گھریلو تنازعات اور گھریلو جھگڑے۔غیر معیاری بنیادی ڈھانچہ۔کسی بھی کام میں ممکنہ نقصان کا پہلے سے اندازہ کرنا۔

اداروں، شعبوں اور تنظیموں کی سظطح پر اختیارات کی تفویض کی کمی۔افراد کی مناسب تربیت نہ ہونا۔ضرورت سے زیادہ منتظم۔فیصلہ تبدیل کرتے رہنے والے زمہ دار۔چند انسانی صفات اور وقت کا ضیاع۔دیر سے پہنچنا۔وعدوں کا پورا نہ کرنا۔لوگوں کے اندر خامیاں نکالنا۔لوگوں کا مزاق اڑانا۔حجت بازی، لوگوں سے بحث کرنا۔عجب اورتکبر یعنی لوگوں کو کمتر سمجھنا۔دوسروں کے معاملات میں مداخلت۔بے ہنری یا فن کا نہ آنا۔جذباتی پن اور غصہ پن، بات بات پر جذبات میں آجانا۔فواحشات اور گندی باتیں۔شیخی بگھارنا۔(30)

تنظیم وقت کا دوسرا مرحلہ: زندگی  کے نصب العین کا تعین کرنا۔

           زندگی کیا ہے؟  اس سوال کا جواب مختلف لوگوں نے مختلف دیا ہے ۔ میرے  نزدیک زندگی  پیدائش سے لے کر موت تک کے وقت کا نام ہے  اس وقت میں عمل کرنا اور آخرت میں نتائج کا ملنا زندگی ہے۔

نصب العین کیا ہے؟

        نصب العین زندگی کے اس تصویر کو کہتے ہیں۔ جو آپ  مستقبل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ 

نصب العین کی اقسام:

  نصب العین کی دو قسمیں ہیں۔ 1۔نصب العین حتمی۔             2۔نصب العین عارضی۔

نصب العین حتمی کیا ہے؟ :  اخروی زندگی  کی تصویر جو آپ  دیکھنا  چاہتے ہیں  جو وقت کی قید سے آزاد ہو اور درست ہو۔ وقت کی قید سےآزاد ہونے کا مطلب ہے کہ اس کے لئے کوئی وقت مقرر نہ ہو بلکہ پوری زندگی اس کو حاصل کرتے کرتے ختم ہو جائے اور  درست ہونے کا مطلب ہے کہ   وہ  قرآن کے  بتائے ہوئے نصب العین کے مطابق ہو۔قرآن میں اللہ تعالی نے انسان کی زندگی کا نصب العین عبادت کو ٹھرایا ہے۔

وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔(31)

ترجمہ:  اور میں نے انسان اور  جنات کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے ہماری زندگی کا  حتمی نصب العین  ہمیں بتا دیا  کہ تمہاری زندگی کا مقصد و نصب العین عبادت ہے ۔ پھر عبادت کی  دو قسمیں ہیں۔

ایک براہ راست عبادت جیسے نماز، روزہ، زکوۃ ، حج وغیرہ  ۔ اورایک بلواسطہ عبادت  جیسے حلال روزی کمانا، کھانا، پینا، لباس پہننا وغیرہ ۔ یہ اعمال اس وقت عبادت بنتے ہیں جب یہ سب حضورﷺ  کے طریقےکے مطابق اخلاص سے کیے جائے۔

گویا انسان کی 24 گھنٹے کی زندگی عبادت بن سکتی ہے صرف زاویہ نگاہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب ہمارے نصب العین کے پیچھے ایسی  زندگی ہو گی جو قرآن نے بتائی ہے  اور  جب ہم اس حتمی نصب العین کے مطابق زندگی گزاریں گے تو ہماری اخروی زندگی کی تصویر  خود بخود ٹھیک ہو جائےگی۔ اگر کسی کا  حتمی نصب العین  صرف پیسہ کمانا  ہے ،عیش و عشرت  ، مزے کرنا ہے جس میں حلال و حرام کا تصور نہ ہو  تو یہ حتمی نصب العین غلط ہو گا۔

عارضی نصب العین کیا ہے؟

        دنیوی  زندگی کی وہ تصویر جو آپ مستقبل میں دیکھنا چاہتے ہیں  جو کسی نہ کسی وقت کے ساتھ مقید ہو اور درست ہو ۔

اس دنیا میں بھی انسان  اپنی زندگی  کو  اچھا سے اچھا کرنے کی کوشش کرتا  رہتا ہے  وہ اپنی مستقبل کی زندگی میں اچھی تصویر دیکھنا چاہتا ہے۔ جس کے لئے وہ تعلیم حاصل کرتا ہے ، نوکری یا  کاروبار کرتا ہے ، شادی کرتا ہے ، بچوں کی پرورش کرتا ہے وغیرہ وغیرہ

        اگر  دیکھا جائے تو ان میں سے ہر کام کسی نہ کسی وقت کے ساتھ مقید ہے ۔ عارضی نصب العین کا مطلب  ہےکہ ان سب کاموں کے لئے   اچھے سے اچھے منازل متعین کرنا۔

      ہمارے معاشرےمیں جب  نصب العین کی بات ہوتی ہے ۔ تو  اکثر لوگ تو اس کو جانتے نہیں اور جو جانتے ہیں وہ سمجھتےہیں کہ نصب العین صرف اس  دنیوی زندگی کا ہوتا ہے  اور وہ بھی صرف تعلیم  ،   نوکری  یا کاروبار کا ہوتا ہے ۔ زندگی کے باقی شعبہ جات  انسان کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر انسان پریشانی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں ۔(32)

 انسانی زندگی کے 7 سات بنیادی شعبے ہیں۔

1۔ ذہن        2 ۔ جذبات      3۔ بدن                     4۔ روح                               5۔تعلقات                             6۔کام/ کیریر       7 ۔ پیسہ

اپنی زندگی کے ان ساتوں شعبوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا عارضی نصب العین متعین کرنا ضروری ہے تاکہ زندگی متوازن ہو سکے، کیوں کہ غیر متوازن زندگی بیش تر مسائل کی جڑ ہے۔(33)

جب کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کا نصب العین  متعین کریں  تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیسے متعین کریں تو  اس  جواب کے لئے  ایک مثال کو سمجھنا ہوگا۔ ایک شخص  کے ان 7 سات شعبوں میں  نصب العین کا تعین کرتے ہیں ۔     

1۔       ذہن /علمی زندگی:  پی  ایچ  ڈی (اسلامیات) کرنا۔

2۔       جذبات،  رویے/ عادات:   اپنے تمام برے جذبات اور عادات کو  ختم کرنا یا کنٹرول کرنا اور اس کی جگہ اچھے عادات اور جذبات لانا۔جیسےغصہ ، نا شکری، نا امیدی اور سستی وغیرہ کی جگہ صبر، شکر، امید اور چستی لانا

3۔                بدن/جسمانی  زندگی : مکمل تندروست و توانا ہونا۔

4۔                      روح/        روحانی زندگی :                     تمام فرض عبادات کا مکمل کرنا اور ساتھ ساتھ نوافل اور تلاوت و ذکر کرنا۔

5۔    تعلقات/  خاندان ، معاشرہ  :ایک بہترین اور خوشگوار گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں عزت کا مقام حاصل کرنا۔

6۔     کام ،پیشہ/ معاشی  زندگی:     پروفیسر بننا۔

7۔   پیسہ، آمدن :  ماہانہ ڈیڑھ لاکھ  روپے ہونا۔

مذکورہ بالا فرضی مثال کو  سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے نصب العین متعین کیجیے۔

تنظیم  وقت کا تیسرا مرحلہ:    نصب العین کے حصول کے لئے  منازل کا تعین کرنا:

       جب آپ نے  زندگی کے تمام شعبہ جات میں نصب العین متعین کر لیا اب آپ  ہر  شعبہ کے لئے منازل کی نشاندہی کریں ۔ منازل کی مثال  سفر کے دوران مائل اسٹون کی طرح ہے جو آپ کو آپ کی  رفتار اور نصب العین کی دوری کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں نصب العین کے حصول کے لئے  آپ اپنے آپ  سے سوالات کیجیے۔

آپ اپنی تعلیمی ، روحانی، خاندانی ، معاشی، جسمانی  زندگی میں اگلے 5 سال تک کہاں پہنچے ہوں گے  کیلنڈر کو سامنے رکھتے ہوئے  ان کو اوقات کا پابند بنائیں ۔ آ پکی عمر کتنی ہو گی؟ آپ کے بچوں کی عمریں کیا ہوگی؟

      فرض کریں  آپ پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں    تو اگلے سال بعد آپ کس کلاس میں ہوں گے ؟ آپ کے مضامین کیا ہوں گے ؟ اگر آپ حج کرنا چاہتے ہے تو آپ نے ااس کے لئے رقم کا کتنا بندوبست کر لیا؟اگلے سال تک کتنا کریں گے؟ آپ کی شادی ہوگئی ہو گی یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ

        تمام  شعبہ جات میں اس طرح کے منازل  متعین کرنے سے آپ کو اپنا احتساب کرنے میں آسانی ملے گی اور نصب العین کے قریب پہنچنے   یا اس سے دوری کا بھی ادراک ہو گا۔

تنظیم  وقت کا چوتھا مرحلہ:  اپنی ذات میں تبدیلی لائیں اور سیکھیں:اپنی سوچ اور انداز فکر کا جائزہ لیں اور اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں اور اسے نصب العین اور منازل زندگی کے مطابق کرنے  کی کوشش کریں۔

اپنے رویہ کا جائزہ لیں او اسے تبدیل کرنے کی کوشش کریں اور اسے نصب العین اور منازل زندگی کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔

اپنی عادات کا جائزہ لیں اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں۔ انہیں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔اپنے تعلقات کا جائزہ لیں اور اپنے نصب العین اور منازل زندگی کے مطابق کرنے کی کوشش کریں۔

اپنے اخلاق کو سنوار کر تمام میدانوں میں ہر دلعزیز بننے کی کوشش کریں۔اپنے معاملات کے حوالے سے قابل اعتماد بنیں کہ آپ پر بھروسہ کیا جا سکے۔نصب العین اور منازل کو سامنے رکھتے ہوئے کام کریں۔روزانہ چند لمحات تنہائی کے حاصل کیجیے۔ یہ احتساب کے اور اپنی ذات سے ملاقات کے لمحات ہیں۔(34)

تنظیم وقت کا پانچواں مرحلہ:   عمل کرنا ،آگے بڑھنا اور جائزہ لیتے رہنا:

          جب آپ نے اپنی زندگی کا نصب العین اور منازل متعین کر لیے  اور اس کے حصول کے لئے  جس سوچ ، صلاحیتوں  اور عادتوں کی ضرورت تھی وہ سیکھنے کی فہرست بنالیں اب عمل کا وقت آتا ہے ۔

اب عمل کیسے شروع کریں گے ؟

اس کے لیے  دو کام کرنے لازمی ہیں ۔

1۔جیبی مذکرہ  لینا۔                                                2۔  قائمۃ الاعمال بنانا۔

جیبی مذکرہ:اس سے مراد جیبی سا ئز چھوٹی ڈائری ہے جو ہر وقت جیب میں رکھی جا ئے۔اور اس میں ذہن میں آنے والے مختلف افکار اور خیالات اور ذہن میں ڈالی جا نے والی یا داشتیں ڈال دی جا ئے اور ذہن کو فا رغ رکھا جا ئے گویا جیبی مذکرہ یا جیبی ڈائری ذہن کو انتشار سے بچا نے کا ایک بہترین نسخہ ہے۔اس جیبی ڈائری میں درجہ ذیل چیزوں کو لکھا جا ئے۔

فون نمبر اور پتے اضا فی معلومات کے ساتھ ۔عام یا دہانیاں جیسے گھڑی کے لئے بیٹری اور آفس کے لئے سٹپلر لینا۔لوگوں سے ملا قات کی یاددہانی ۔سامان کی فہرست ۔روزانہ کاخرچ۔ٹریفک میں پھنسے ہوئے آنے والے قیمتی آئیڈیاز ۔کوئی اچھی کہاوت یا شعر ۔تجاویز۔منصوبے

اس کے بعد یہ جیبی مذکرہ سے متعلقہ فائل میں منتقل کرنا چا ہیئے ۔یہ رکھنے کی چیز نہیں ہیں،اس کی مثال اس ٹوکری کی ہے جس میں با زار سے سامان لا تے ہیں اور پھر متعلقہ جگہوں میں منتقل کردیا جا تا ہے۔تو  جیبی مذکرہ سے

1۔فون ڈائری                  2۔کرنے کے کاموں کی فہرست                      3۔تجاویز کی فا ئل

میں منتقل کردیں اور مذکرہ سے کا ٹ دیں۔ اس پر کراس کا نشان لگا دیں ۔مذکرہ ہر دن خا لی ہونا چا ہیئے۔

قا ئمۃ الا عمال:۔

کئے جا نے والے کا موں کی پانچ فہرستیں ہوتی ہیں۔

1۔مرکزی فہرست:اس سے مُراد آپ کے ذہن میں اپنی زندگی میں جتنے کام کرنے ہیں اور جو چیزیں آپ نے خریدنی ہے  یا کچھ منصوبے ہیں جن کو کرنا ہے لیکن وقت ابھی تک متعین نہیں کیاتو ایسے تمام کا م اور منصوبے اس فہرست میں لکھے جا ئیں گے۔

2۔سالانہ فہرست:سال کے آغاز میں منصوبہ بندی ہوگی ۔جو کام  اور منصوبے اس سال کے لئے طے ہوچکے ہیں ان کو اس فہرست میں ڈال دیا جا ئے۔

3۔ما ہا نہ فہرست:ماہ کےآغاز میں منصوبہ بندی ہوگی۔جو کام اور منصوبے اس مہینے کے لئے طے ہوچکے ہیں انہیں یہا ں درج کردیا جائے۔

4۔ہفتہ وار فہرست:ہفتے کے آغاز میں ہفتے کی پلاننگ کریں اوراس ہفتے کے کا موں اور منصوبے اس فہرست میں ڈالے جا ئے۔

5۔یومیہ فہرست:آج کے دن عام معمول سے ہٹ کر کرنے کے وہ کا م جو ذہن سے نکل سکتے ہیں یہاں لکھ لئے جا ئیں۔(35)

 دن کے آغاز سے قبل ، چاہے رات کو یا صبح سویرے دن کے کاموں کی فہرست بنالی جائے اپنے کاموں کی ترجیحات بنالیں اور  ان پر عمل کرنے کے لئے ترتیب کے نمبر بھی ڈال لیں ۔اور اس میں تین جگہوں سے کام آرہے ہوں گے۔

اگر ”کرنے کے کام“ کے اصول پر عمل کرلیا جائے تو کوئی کام بھول نہیں سکتے کیوں کہ تمام ”کرنے کے کام“ پر باربار نظر پڑے گی اور اس اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے وعدے نہیں توڑیں گے۔

روزانہ کے منصوبے کے لیے اوسطاً 45 منٹ چاہیے، جو کم زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ذمہ داریوں اور معمولات کے حساب سے وقت لگتا ہے اگر یہ 45 منٹ کو پکڑ لیا جائے تو عمل آسان ہوجائے گا۔یہ 45 منٹ کون سے ہوں یہ ہر آدمی اپنے وقت کے حساب سے کرسکتا ہے ہاں صبح سویرے یعنی فجر سے پہلے کیا جائے کیوں کہ فجر کے بعد عمل شروع ہوتا ہےپھر دن گزارنے کی ترتیب بھی رسول اللہ ﷺ والی ہو۔ (35)

حوالہ جات

1۔کوثر،پروفیسر شاہین کوثر،مقالات سیرت،اسلام آباد:وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی،1438ھ/2016ء،اسلامی ریاست میں عوام الناس کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے طریقے،ص:942

2۔ایضا،ص943

3۔احمد،سید عرفان،آسان ٹائم مینجمنٹ،کراچی:کامیابی ڈائجسٹ1435ھ/2014ء،ص:5

4۔جمعہ،محمد بشیر جمعہ،ترقی اور کامیابی بذریعہ تنظیم وقت،کراچی:ٹائم مینجمنٹ کلب،1435ھ/2014،ص:38

5۔ایضا،ص:41

6۔ جمعہ،محمد بشیر جمعہ،وقت اور زندگی  کی تنظیم، کراچی:ٹائم مینجمنٹ کلب،1435ھ/2014،ص:15 تا 17

7۔معاویہ۔مولانا ہارون،وقت کی قدر کیجیے،لاہور:بیت العلوم، 1435ھ/2014،ص:112

8۔میر،غلام رسول،مطالب کلام اردو،لاہور:شیخ غلام علی اینڈ سنز،1997ء

9۔قادری،محمد افروز،وقت ہزار نعمت ہے،لاہور:فیض گنج بخش بک سینٹر،2011ء،ص:19

10۔علامہ،محمد اقبال،کلیات اقبال اردو،لاہور:ارمغان حجاز الفیصل،ص:563

11۔ایضا ،ص:145

12۔عثمانی،محمد شفیع،معارف القرآن،کراچی:ادارۃ المعارف،1982ء،ج:8،ص:812

13۔القرآن،سورۃ الفرقان:63

14۔تفسیر ابن کثیر بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس،کوئٹہ:مکتبہ محمد،2017،ص:4

15۔الکشاف بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس،کوئٹہ:مکتبہ محمد،2017،ص:5

16۔سورۃ الشمس:1،2،3

17۔ سورۃ اللیل:1،2

18، سورۃ الضحی:1،2،

19۔ سورۃ العصر:1،2

20۔مصنف لابن ابی شیبہ ،ص:134، بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس،کوئٹہ:مکتبہ محمد،2017،ص:7

21۔بخاری، بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس،کوئٹہ:مکتبہ محمد،2017،ص:7

22۔ترمذی، بحوالہ مفتی سمیع اللہ ، ٹائم مینجمنٹ کورس،کوئٹہ:مکتبہ محمد،2017،ص:8

23۔24۔25۔26۔27۔ جمعہ،محمد بشیر جمعہ،وقت اور زندگی  کی تنظیم، کراچی:ٹائم مینجمنٹ کلب،1435ھ/2014،ص:35،36،27،29

28۔ جمعہ،محمد بشیر جمعہ، مستعد،موثر ،منظم مسلمان جمعہ، کراچی:ٹائم مینجمنٹ کلب،1437ھ/2016،ص:38

29۔30۔ جمعہ،محمد بشیر جمعہ،وقت اور زندگی  کی تنظیم، کراچی:ٹائم مینجمنٹ کلب،1435ھ/2014،ص:51 تا 86

31۔القرآن،سورۃ الذاریات:56

32۔احمر،محمد سلیمان،مبنی بر حکمت وژن ٹریننگ مینول،کراچی:ٹائم لینڈر کمپنی،1437ھ/2016،ص: 45

33۔ احمد،سید عرفان،آسان ٹائم مینجمنٹ،کراچی:کامیابی ڈائجسٹ1435ھ/2014ء،ص:13

34۔ جمعہ،محمد بشیر جمعہ،ترقی اور کامیابی بذریعہ تنظیم وقت،کراچی:ٹائم مینجمنٹ کلب،1435ھ/2014،ص:52

35۔ احمر،محمد سلیمان،مبنی بر حکمت  تنظیم وقت ٹریننگ مینول،کراچی:ٹائم لینڈر کمپنی،1437ھ/2016،ص: 15،16

Empowering Lives: A Look at Charitable Organizations in Pakistan

Introduction:

Pakistan, a country with a rich cultural heritage and a diverse population, has also witnessed the rise of numerous charitable organizations dedicated to addressing various social issues. These organizations play a crucial role in supporting vulnerable communities, fostering education, and providing healthcare services. In this blog post, we will explore some of the prominent charity organizations in Pakistan, shedding light on their founders, purposes, and the impactful services they offer.

Edhi Foundation:

Founder: Abdul Sattar Edhi

Purpose: Established in 1951, the Edhi Foundation is one of the largest and most organized social welfare systems in Pakistan. Its primary objective is to provide healthcare, social services, and burial services for unclaimed bodies.

Services: The Edhi Foundation operates ambulances, hospitals, orphanages, and rehabilitation centers across the country. Their services also extend to disaster relief efforts and assisting the homeless.

Saylani Welfare International Trust:

Founder: Bashir Dawood

Purpose: Saylani Welfare International Trust aims to alleviate poverty and empower communities through various humanitarian projects.

Services: The organization provides free meals, clean water, healthcare, and vocational training. Saylani Welfare International Trust has gained recognition for its massive food distribution programs, especially during times of crisis.

Indus Hospital:

Founder: Dr. Abdul Bari Khan

Purpose: Indus Hospital was founded with the mission to provide quality healthcare services to underserved populations, regardless of their ability to pay.

Services: The hospital offers a wide range of medical services, including surgeries, maternity care, and specialized treatments. Additionally, Indus Hospital is actively involved in medical research and community health initiatives.

Chhipa Welfare Association:

Founder: Ramzan Chhipa

Purpose: The Chhipa Welfare Association focuses on rescue and relief operations during emergencies, as well as providing support to the underprivileged.

Services: The organization is known for its ambulance services, orphanages, and food distribution programs. Chhipa Welfare Association also plays a vital role in disaster management, responding promptly to natural calamities.

Sayyed Bilal Welfare Trust:

Founder: Maulana Muhammad Bashir Farooqi

Purpose: Sayyed Bilal Welfare Trust aims to uplift society by addressing issues related to education, healthcare, and poverty.

Services: The trust runs schools, healthcare facilities, and vocational training centers. It focuses on empowering individuals through education and skill development, contributing to sustainable community development.

Conclusion:

These charitable organizations in Pakistan, driven by the passion and dedication of their founders, are making significant strides in improving the lives of countless individuals. Their diverse range of services, from healthcare and education to emergency relief, highlights the multifaceted approach needed to tackle the various challenges faced by the Pakistani population. As these organizations continue their noble work, they inspire hope and serve as beacons of positive change in the country.

Pin It on Pinterest

Share This
Open chat
1
Scan the code
Hello
Can we help you?