ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 12)

ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 12)

ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات

پچھلے مضمون میں، ہم نے ہوم اسکولنگ کا نظریہ تعلیم متعارف کروایا تھا۔ آج، ہم اس کی ضروریات، فوائد، مشکلات اور غلط فہمیوں پر بات کریں گے۔

ہوم اسکولنگ کی ضروریات

ہوم اسکولنگ شروع کرنے سے پہلے اس کی وجہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ کیوں آپ اس کو ترجیح دے رہے ہیں اور آپ کی منزل کا تعین بھی ناگزیر ہے کہ آپ اس تعلیم سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سخت محنت، تڑپ، اور اللہ پر بھروسہ ان کے بغیر ہوم اسکولنگ ایک ادھورا خواب ہوگا۔

ہوم اسکولنگ کے فوائد

  • خاندان کی تعمیر: ہوم اسکولنگ ایک اچھے خاندان اور شخصیت کو پروان چڑھاتی ہے۔
  • دینی اور دنیاوی تعلیم: بچہ کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے۔
  • پیسوں کی بچت: ہوم اسکولنگ پیسوں کی بچت کرتی ہے۔
  • اچھی صحت: بچہ صحت مند رہتا ہے۔
  • غلط ماحول سے بچاؤ: بچہ غلط ماحول سے محفوظ رہتا ہے۔

ہوم اسکولنگ کی مشکلات

  • تنقید: روایتی نظام والے ہوم اسکولنگ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بچہ کی زندگی ضائع کر رہے ہیں۔
  • استاد اور نصاب کا انتخاب: استاد اور نصاب کا انتخاب ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔
  • گھر کے کام اور مشترکہ خاندان: گھر کے کام، مختلف عمر کے بچے، اور مشترکہ خاندان جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہوم اسکولنگ کے بارے میں غلط فہمیوں

  • منظم نہ ہونا: کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بچے منظم نہیں ہوتے اور گھر میں تعلیم دینے سے گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
  • ٹیوشن سمجھنا: ہوم اسکولنگ کو لوگ ٹیوشن سمجھنے لگتے ہیں، جبکہ یہ فطرت اور عملی زندگی بھی شامل ہے۔

ہوم اسکولنگ کے مختلف طریقہ کار جن کے صرف نام یہاں ذکر کر لیتا ہوں۔ جن حضرات کی دلچسپی ہوگی وہ خود اس کو سرچ کر لیں گے۔

Unschooling

Co.Op

Charlotle mason

Montessori

Eclectic

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

.اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

ہمارے ہوم اسکولنگ اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی سیریز کے دیگر 11 مضامین بھی دیکھیں، جو  کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ یہ سلسلہ آپ کو بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے طریقے اور ہوم اسکولنگ کے بارے میں جامع معلومات فراہم کرتا ہے۔

 

ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 12)

بچوں کو اسکول میں کب داخل کرایا جائے؟ | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 11)

بچوں کو کب اسکول میں داخل کرایا جائے؟؟

اسکول میں داخلے کا وقت:

ہمارے معاشرے میں ایک عام رواج یہ چل پڑا ہے کہ بچہ جب ذرا بڑا ہو جاتا ہے تب والدین کو ایک فکر لگ جاتی ہے کہ اب اس بچے کو کس اسکول میں داخل کرائے۔ جن والدین کے پاس پیسہ ہوتا ہے وہ تو اپنے شہر کے بڑے پرائیوٹ ادارے میں داخل کرا دیتے ہیں اور جو غریب طبقہ ہوتا ہے وہ سرکاری اسکولوں کو رخ کرتے ہیں اور مڈل کلاس طبقہ وہ اپنے علاقے میں قریب کوئی پرائیوٹ اسکول کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

اسکول جانے کا نفسیاتی اثر:

ان تمام اسکولوں میں شروع شروع میں بچے خوشی خوشی جاتے ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد بچوں کا اسکول جانے کو دل نہیں کرتا ہے۔ پھر والدین انہیں زبردستی بھیجتے ہیں جس دن چھٹی ہوتی ہے وہ دن بچے کی زندگی کا بہترین دن ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اسکولوں میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو مار دیا جاتا ہے۔ وہاں روزانہ کی بنیاد پر بچوں کی عزت نفس مجروح کیا جاتا ہے، انکی نیند پوری نہیں ہوتی، اور ان کو بات بات پر یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم غلط ہو۔ جو ٹیچر نے کہا ہے وہ صحیح ہے اور تم ایک کھلونے ہو جو ٹیچر کی مرضی کے مطابق چلے گا۔ بچوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا اور ان کو پہلے دن سے ایسی چیزوں میں لگایا جاتا ہے جو بے مقصد ہوتی ہیں۔ اُن کی دلچسپی والی چیزیں بہت کم ہوتی ہیں۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر بچے اسکول جانے سے بیزار ہوتے ہیں۔ جس کے بعد وہ علم سیکھنے کے لیے نہیں بلکہ امتحان پاس کرنے اور ڈگری حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں جب انہیں ڈگری مل جاتی ہے، پھر وہ کبھی غلطی سے بھی قلم و کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتے۔

ہوم اسکولنگ کا فائدہ:

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچہ کو کتنی عمر میں اور کس اسکول میں داخل کیا جائے گا؟ جس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کے لیے 7 سال تک سب سے بہتر ہوم اسکولنگ ہے۔ ہوم اسکولنگ ایک جدید نظریہ تعلیم ہے جس میں والدین بچے کے لیے اپنی مرضی کے استادوں اور نصاب کا انتخاب کر کے انہیں گھر پر ہی تعلیم دیتے ہیں۔ ہوم اسکولنگ روایتی اسکولوں کی تعلیم سے مختلف ہے کیونکہ:

  • وقت اور کلاس کی آزادی:  

    ہوم اسکولنگ میں بچہ وقت، کلاس اور امتحان کے دباؤ سے آزاد ہوتا ہے۔

  • حسب خواہش نصاب:

  •   والدین اساتذہ کو بتا دیتے ہیں کہ ہم اس سال اپنے بچے کو یہ چیزیں سکھانا چاہتے ہیں، اور اساتذہ اپنی سہولت کے مطابق نصاب بناتے ہیں۔
  • فطرت کے نظارے:

    گھر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کو فطرت کے نظارے، جیسے سمندر، پہاڑ، دریا، چرند، پرندے، درخت، پھول، باغات وغیرہ، بھی دکھائے جاتے ہیں۔ جہاں بچے کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں اور کھیلتے ہیں، جس سے اُن کے جسم اور ذہن پر اچھا اثر پڑتا ہے۔

  • عملی زندگی کے تجربات:

  •   بچوں کو عملی زندگی میں خاندان اور معاشرے میں زندگی کے طور طریقے سکھائے جاتے ہیں، جو بچہ نہایت تیزی سے اور دلچسپی کے ساتھ سیکھتا ہے۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

.اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 12)

بچوں کو خود اعتماد کیسے بنایا جائے؟ | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 10)

خود اعتماد بنانے کے طریقے

1. خود اعتمادی کا خیال رکھیں

پچھلے مضامین میں ہم نے بچوں کو انگلش یا عربی سکھانے کے اصول بتائے تھے، اور وہ اصول صرف انگلش یا عربی تک محدود نہیں بلکہ کوئی بھی زبان سیکھنی ہو تو یہی اصول و آداب ہیں۔

2. دوسروں کے ردعمل کو کیسے سنبھالیں

جب بچہ انگلش یا عربی بولتا ہے اور غلطی کرتا ہے یا آپ جب بولتے ہیں اور غلطی کرتے ہیں، تو آس پاس کے لوگ ہنستے ہیں یا مذاق اُڑاتے ہیں۔ یہ مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا علاج کیا ہے؟

1. سوچئے کہ اگر آپ کے دوست آپ کے لطیفے پر ہنس رہے ہیں، تو یہ خوشی کی بات ہے، کیونکہ کسی کو خوش کرنا بھی ثواب ہے۔ لوگ آپ پر ہنس رہے ہیں تو اسے اپنی خامیوں کے بجائے ایک موقع سمجھیں کہ آپ لوگوں کو خوش کر رہے ہیں۔

2. مایوسی گناہ ہے، اس لیے مایوس ہونے کے بجائے محنت کریں اور خود پر اعتماد رکھیں۔

3. یہ سوچئے کہ اگر آپ انگلش یا عربی سیکھتے وقت غلطیاں کریں گے، تو کچھ لوگ ہنسیں گے، لیکن جب آپ سیکھ جائیں گے، تب آپ انہیں خود پر ہنسنے کا موقع دیں گے۔

3. اپنے آپ پر ہنسیں

اگر لوگوں کے ہنسنے سے پہلے آپ خود پر ہنسیں تو لوگوں کی ہنسنے کی طاقت کم ہو جائے گی۔ جب آپ خود پر ہنسیں گے، تو لوگوں کی ہنسی آپ کو پریشان نہیں کرے گی، اور وہ آپ کے ردعمل سے پریشان ہو کر ہنسنا چھوڑ دیں گے۔

4. جلدی سیکھنے کا عزم

لوگوں کے ہنسنے پر مایوس ہونے کے بجائے، محنت کریں اور جلدی سیکھنے کا عزم رکھیں۔ اگر آپ چار مہینے میں سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اسے دو مہینے میں سیکھنے کی کوشش کریں۔

5. بچوں کو خود اعتمادی کے اصول سکھائیں

بچوں پر ہنسنے کے بجائے ان کی خود اعتمادی بڑھائیں۔ ویڈیوز اور آڈیوز بنائیں، آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر باتیں کریں، اور خود کو سیکھنے کا موقع دیں۔ غلطیوں کو بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ انہیں سیکھنے کا حصہ مانیں۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 12)

بچوں کو عربی یا انگلش بولنا کیسے سکھائیں؟ | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 9)

بچوں کو عربی یا انگلش بولنا کیسے سکھائیں؟

ہمارے معاشرے میں، اگر کسی کو کسی زبان میں بولنا آ جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اسے یہ زبان آتی ہے۔ اگر ہم کوئی زبان سیکھنا چاہیں، تو استاد ہمیں اکثر اسٹیج پر سب کے سامنے بولنے کا کہتے ہیں، جو کہ پبلک اسپیکنگ ہے اور بہت ہی مشکل کام ہے۔ اسٹیج پر انسان اپنی زبان نہیں بول سکتا، چہ جائیکہ کوئی دوسری زبان۔

اصل میں بولنا ایک طرف سے نہیں ہوتا، بلکہ بولنے اور سننے کے ملاپ سے جو گفتگو و بات چیت بنتی ہے، اسے بولنا ہم کہتے ہیں۔ ویسے، اسٹیج پر آ کر رٹا لگائی تقریر پڑھ لینا یا سنا دینا، اسے بولنا نہیں کہتے۔ جب بچے نے پڑھنا، لکھنا، اور سننا انگلش یا عربی میں شروع کر دیا، اب آخری مرحلہ اس کے بولنے کا آتا ہے، جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ پہلے تین کام صحیح ہوئے ہیں یا نہیں۔

بچے کو بولنا سکھانے کے اقدامات

1. بچے سے زیادہ سے زیادہ بات چیت کریں

  • بچے کو بولنے کا موقع دیں جتنا وہ بولے گا، اتنی اس کی زبان چلنے لگے گی۔ لیکن اس میں دو باتوں کا خیال رکھیں:
    • اسے بولنے پر مجبور نہ کریں، جب وہ خود بولنا چاہے، تب اس سے بات کریں۔
    • اس کی غلطیاں نہ پکڑیں۔ ہمارے معاشرے میں، جب بچہ کچھ لکھ کر دکھائے یا وہ بات چیت کرنا چاہے، تو ہم فوراً اس کی غلطیاں پکڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں، جس سے بچہ مایوس ہو کر زبان سیکھنا چھوڑ دیتا ہے۔

2. خوف ختم کریں

  • بچے سے یہ خوف نکالنا ضروری ہے کہ اس کی باتوں کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد بچہ بے خوفی میں بولے گا اور سیکھے گا۔

پاکستانیوں سے انگلش میں بات کرنا مشکل ہوتا ہے، جبکہ انگریزوں سے بات کرنا آسان ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے اندر لوگوں کو جانچنے کی تمنا اُن کو سمجھنے کی تمنا پر غالب ہوتی ہے۔ وہاں، لوگ باتوں کی غرض سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور الفاظ کے گرائمر پر زیادہ دھیان نہیں دیتے۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 12)

بچوں کو لکھنا کیسے سکھائیں؟ | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 8)

بچوں کو لکھنا کیسے سکھائے؟؟

زبان سیکھنے کے چار ذرائع میں سے ایک ذریعہ لکھنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر بچوں کو بہت کم عمری میں پنسل تھما دی جاتی ہے اور فوراً کہا جاتا ہے کہ A, B, C لکھو۔ اس پر بھی ظلم یہ ہوتا ہے کہ جب بچہ کوئی چھوٹی سی غلطی کرتا ہے، تو اُسے ڈانٹا جاتا ہے یا بعض اداروں میں مارا بھی جاتا ہے۔ یہ بچے کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتا ہے اور وہ لکھائی سے بیزار ہو جاتا ہے۔

بچوں کو لکھائی سے بیزار نہ کریں

بچوں کی نفسیات کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز کو نمایاں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ کاغذ کا رنگ اکثر سلیٹی (gray) ہوتا ہے، اور پنسل کا نشان بھی قریب قریب اسی رنگ کا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بچے کو اس کی لکھائی واضح نظر نہیں آتی۔ جب بچہ زور لگا کر لکھتا ہے تو اکثر پنسل کا سکہ ٹوٹ جاتا ہے، جس پر پھر اُسے ڈانٹ پڑتی ہے۔

مزید یہ کہ بچوں کو اکثر اس بات پر بھی ڈانٹ پڑتی ہے کہ الفاظ کو لائنوں کے اندر کیوں نہیں لکھا۔ صفحے پر لکیریں کھینچنا، کتابوں پر تصویریں بنانا، یہ سب ایسے کام ہیں جو دراصل بچوں کے لکھائی سیکھنے کے عمل کا حصہ ہیں۔ ہمیں بچوں کو ایسے کاموں پر نہیں ڈانٹنا چاہئے بلکہ اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔

لکھائی کے مراحل

بچوں کو لکھائی سکھانے کے مختلف مراحل ہیں۔ ہر بچہ ان مراحل سے گزرتا ہے اور ہمیں اسے سمجھداری سے سکھانا چاہئے:

Uncontrolled Random Scribbling

پہلا مرحلہ یہ ہے کہ بچے بے ترتیب لکیریں کھینچتے ہیں جن کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی۔ یہ لکیریں بے معنی معلوم ہو سکتی ہیں لیکن یہ بچے کے لکھنے کے عمل کی ابتدا ہوتی ہے۔

Controlled Direction

دوسرے مرحلے میں بچہ مخصوص سمت میں لکیریں کھینچنا شروع کرتا ہے، مثلاً اوپر یا نیچے کی طرف۔ یہ ایک بڑا قدم ہے اور اسے کنٹرولڈ ڈائریکشن کہا جاتا ہے۔

Letter-like Forms

تیسرے درجے میں بچے حروف تہجی جیسے نشانات بنانے لگتے ہیں۔ یہ شکلیں بظاہر بے معنی ہو سکتی ہیں لیکن یہ لکھائی کی اگلی منزل کی طرف ایک اور قدم ہوتا ہے۔

Pictures or Shapes not Identified

چوتھے درجے میں بچہ ایسی تصویریں بنانے لگتا ہے جن کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

Free Writing

آخر میں، بچہ کھل کر لکھائی کرنا سیکھ جاتا ہے جسے فری رائٹنگ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ صلاحیت سات سال کی عمر کے بعد پروان چڑھتی ہے۔

لکھائی میں اصل کیا ہے؟

ہمارے معاشرے میں تحریر کی اصل اہمیت مواد اور خیالات سے ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں رموز اوقاف، خوشخطی، اور سپیلنگ پر اتنا زور دیا جاتا ہے کہ بچے لکھنے سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ ان کی سوچ کو دبانے کے بجائے ہمیں انہیں آزادانہ لکھنے دینا چاہئے تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔

طلبہ کو لکھنے کی آزادی دیں

بچوں کو لکھائی سکھانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں آزادانہ طور پر لکھنے دیا جائے۔ جب وہ لکھ لیں، تو ان سے کہیں کہ اپنے پسندیدہ جملوں کو خط کشیدہ کریں۔ اس عمل سے بچوں میں بامعنی الفاظ کو پسند کرنے اور غور کرنے کی عادت پیدا ہوگی۔

ہمیں بچوں کو وہ چیزیں سکھانی چاہئیں جو ان کے مستقبل میں کام آئیں، جیسے کالم لکھنا، رپورٹ لکھنا، اور تبصرہ لکھنا۔ یہ سب ان کے لئے نہ صرف تعلیمی ترقی کا باعث ہوں گی بلکہ عملی زندگی میں بھی مفید ثابت ہوں گی۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 12)

بچوں کو پڑھنے والے کیسے بنائیں؟ | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 7)

والدین اور اساتذہ کو آج کل جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ طلبہ اور بچے پڑھتے نہیں ہیں۔ انہیں لاکھ مرتبہ سمجھایا جائے، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اسی لیے آج ہم اس موضوع پر چند گزارشات پیش کریں گے جن پر اگر عمل کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔

لائبریریوں کا فروغ دیں

سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے گھر میں اور اسکول، کالج اور مدارس میں لائبریریوں کو فروغ دیں۔ آج سے چند سو سال پہلے تک جب مسلمان عروج پر تھے، تو مسلمانوں کے گھروں میں دو جگہیں مختص ہوتی تھیں: ایک مسجد کے لیے، جہاں گھر والے اپنی نمازیں اور ذکر و اذکار کرتے، اور ایک مکتبہ یعنی لائبریری کے لیے، جہاں ہر گھر والے اپنی استطاعت کے مطابق کتابیں رکھتے اور انہیں پڑھتے تھے۔ جب سے مسلمانوں کے گھروں سے یہ دو چیزیں نکل گئیں، اسی دن سے مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا۔

اس لائبریری میں کہانیوں، سوانح حیات، جغرافیہ، شاعری، لغات اور مختلف موضوعات کی کتابیں ہونی چاہئیں۔

نوٹ بُکس کا استعمال

دوسرا کام یہ کیا جائے کہ بچوں سے کہا جائے کہ وہ چند قسم کی نوٹ بکس بنائیں جو زندگی بھر کے لیے ہوں۔ ایک ختم ہو جائے تو دوسرا نوٹ بک بنایا جائے جس پر جلد دوم، پھر جلد سوم، اور یہ زندگی بھر چلتا رہے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں بچوں سے الگ الگ کاپیاں بنوائی جاتی ہیں، ہر موضوع کے لیے، اور وہ صرف ایک سال کے لیے ہوتی ہیں۔ جیسے ہی سال ختم ہوتا ہے، وہ کاپیاں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ لیکن جو کاپیاں آپ بنوائیں گے، وہ زندگی بھر چلتی رہیں گی۔

  1. ریڈنگ لوگ (Reading Log): 
    پہلی نوٹ بک ریڈنگ لوگ ہونا چاہیے۔ اس میں بالترتیب کتاب کا نام، مصنف کا نام، مطالعہ شروع کرنے کی تاریخ، اور پسندیدہ جملے درج کیے جائیں۔ اس میں ان باتوں کو لکھنا ہو گا جنہوں نے آپ کو متاثر کیا۔
  2. بیاض (Anthology):
    دوسری نوٹ بک بیاض کہلائے گی۔ اس میں وہ عبارات، نظمیں، اشعار، اور اقوال لکھیں جو مختلف کتابوں سے آپ کو پسند آئیں۔ اس میں صرف عبارت اور اس کا حوالہ درج کرنا ہو گا۔
  3. ورڈ پاور نوٹ بک  (Word Power Note Book):
    تیسری نوٹ بک ورڈ پاور نوٹ بک ہو گی، جس میں آپ وہ الفاظ درج کریں گے جن کا معنی آپ کو تین دفعہ کے مطالعے کے باوجود سمجھ نہ آئے۔ اس کے ساتھ اس کے معنی، استعمال کے طریقے، اور اس کے خاندان کے دیگر الفاظ بھی لکھیں۔

مطالعہ کا شوق پیدا کریں

جب آپ نے لائبریری بنائی، مطالعہ شروع کیا، اور تین قسم کی کاپیاں تیار کر لیں، تو یہ کام کریں کہ جو آپ نے پڑھا ہے، وہ بچوں کے ساتھ شئیر کریں۔ انہیں بتائیں کہ آپ کی پسندیدہ کتابیں کون سی ہیں اور آپ کس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ جب تک بچوں کو معلوم نہ ہو کہ ان کے والدین یا اساتذہ کی پسندیدہ کتابیں کون سی ہیں، وہ پڑھنے میں دلچسپی نہیں لیں گے۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

بچوں کو پڑھنا کیسے سکھائیں؟ (قسط نمبر 6)

پڑھنا کیوں ضروری ہے؟

زبان سیکھنے کا ایک اہم ستون پڑھنا ہے کیونکہ جو انسان جتنا زیادہ پڑھے گا، وہ اُتنا زیادہ اُس زبان کو سیکھے گا۔ لیکن بچوں کو پڑھنا سکھانے میں احتیاط ضروری ہے۔ اگر ابتدا حروف تہجی سے کی جائے، تو بچے پڑھنے سے بیزار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسی چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے جو انہیں بے مقصد لگتی ہیں۔

بچوں میں پڑھنے کی عدم دلچسپی کی وجہ

ہمارے معاشرے میں بچوں کو زبان سکھانے کی ابتدا حروف تہجی سے کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اکثر بچے اپنی تعلیمی زندگی کے بعد کتابیں پڑھنے سے دور ہو جاتے ہیں۔ پڑھنے کا یہ روایتی طریقہ بچوں کو بور کر دیتا ہے۔ حروف تہجی سے شروع کرنے کے بجائے، ہمیں ایک مؤثر طریقہ اپنانا چاہیے تاکہ بچے کا پڑھائی میں شوق بڑھے۔

بچوں کو پڑھنا سکھانے کا درست طریقہ

کسی بھی زبان کو سکھانے کے لیے ہمیں کل سے جز کی طرف آنا ہوگا۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچے کو اپنے ساتھ لائبریری لے جائیں اور وہاں کتابیں دکھائیں۔ پھر کوئی دلچسپ کہانیوں والی کتاب منتخب کریں اور اسے بچے کے سامنے رکھیں۔ کتاب میں الفاظ پر ہاتھ رکھتے جائیں تاکہ بچہ سیکھے کہ پیراگراف کیسے ختم ہوتا ہے، اور صفحہ پلٹنے کا عمل کیسے ہوتا ہے۔

بچوں میں پڑھنے کی خواہش کیسے پیدا کریں؟

جب آپ خود کتاب پڑھتے ہیں، تو بچہ آپ کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 2 سے 7 سال کی عمر کے بچے دوسروں کی نقل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر آپ خود پڑھیں گے، تو بچہ بھی کتاب اُٹھا کر پڑھنے کی کوشش کرے گا۔ اس عمل سے بچے کے اندر پڑھنے کی دلچسپی بڑھتی ہے۔

فلش کارڈز سے پڑھنا سکھانے کا طریقہ

بچے کو کتابوں سے متعارف کروانے کے بعد، آپ فلش کارڈز استعمال کر سکتے ہیں۔ چار فلش کارڈز لیں: دو پر بچے کا نام اور دو پر اس کے بہن یا بھائی کا نام لکھیں۔ پھر بچے سے کہیں کہ وہ اپنے ابو سے پوچھے کہ اس پر کیا لکھا ہے۔ جب اس کے والدین بھی اسے یہی بتائیں گے کہ یہ اس کا نام ہے، تو اسے یقین آ جائے گا۔

ارد گرد کی اشیاء سے الفاظ سکھائیں

فلش کارڈز سے چند الفاظ سکھانے کے بعد، آپ ارد گرد کی اشیاء پر نام لکھ کر لگا سکتے ہیں۔ جیسے دروازہ، میز، یا گلاس۔ بچے کو دکھائیں کہ کس چیز کا کیا نام ہے، اور اسے الفاظ کی پہچان کروائیں۔ جب وہ تقریباً چالیس الفاظ سیکھ لے، تو الفاظ کی مدد سے اسے حروف تک پہنچائیں۔

حروف تہجی کی پہچان کا طریقہ

اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ بورڈ یا کاپی پر بچے کا نام مثلاً ” افضل خان ” لکھیں اور اس کے نیچے دوسرا نام جیسے ” علی  ” لکھیں۔ اب بچے سے پوچھیں کہ ان دونوں میں سے کون سا نام بڑا ہے؟ وہ بتائے گا کہ “افضل خان” بڑا ہے۔ پھر اس سے پوچھیں کہ کیوں بڑا ہے؟ وہ جواب دے گا کہ اس میں زیادہ حروف ہیں۔ تب آپ اسے بتائیں کہ یہ حروف تہجی کہلاتے ہیں۔ پھر بچے سے پوچھیں کہ دونوں ناموں میں کون سے حروف ایک جیسے ہیں۔ اس طرح بچہ الفاظ پر غور کرتے ہوئے حروف کی پہچان سیکھنے لگے گا۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 12)

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر5) بچوں کو پڑھانےکا صحیح طریقہ

اس تحریرمیں ہم بچوں کو پڑھانےکا صحیح طریقہ سیکھیِنگے۔  کیونکہ زبان سیکھنے کا ایک اہم ستون پڑھنا ہے۔ جتنا زیادہ کوئی شخص پڑھے گا، اُتنا زیادہ وہ زبان سیکھے گا۔ تاہم، بچوں کو پڑھنا سکھانے کے لیے زبان کی حروف تہجی سے آغاز نہ کریں ورنہ بچے بیزار ہو سکتے ہیں۔

بچوں کو پڑھنے کا صحیح طریقہ

زبان سیکھنے کا ایک ستون پڑھنا ہے کیونکہ جتنا زیادہ انسان پڑھے گا، اُتنا زیادہ وہ زبان سیکھے گا۔ لیکن اس میں خیال رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کو پڑھنا سکھانے کے لیے زبان کی حروف تہجی سے ابتداء نہ کی جائے ورنہ بچے پڑھنے سے بیزار ہو سکتے ہیں، کیونکہ بچوں کی نفسیات میں یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے جو ان کو بے مقصد لگتی ہیں۔ اس تحریر میں ہم بچوں کو پڑھنے کے مؤثر طریقے سیکھیں گے تاکہ ان کی زبان سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔

بچوں کو پڑھنے کی تعلیم دینے کے مراحل

ہمارے معاشرے میں چونکہ بچوں کو زبان سکھانے کے لیے ابتداء حروف تہجی سے ہوتی ہے، اس وجہ سے اکثر بچے اپنی تعلیمی زندگی کے بعد کتابیں نہیں پڑھتے۔ پڑھنے کا سفر ہمارے معاشرے میں کچھ یوں ہوتا ہے: پہلے حروف تہجی، پھر الفاظ، اس کے بعد جملے، پھر پیراگراف، پھر مضمون، اور آخر کار کتاب اور لائبریری۔ یہ سفر بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص تالاب میں تیرنا سیکھنا چاہے اور ایک مرتبہ جا کر ہاتھ اس میں ڈالے، پھر دوسرا ہاتھ، پھر پاؤں، پھر دوسرا پاؤں، پھر سر، اور آخر میں پورا بدن، جو کہ نہایت تکلیف دہ اور وقت ضائع کرنے والا عمل ہے۔

بچوں کو پڑھنے کی تحریک کیسے دیں

کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے کل سے جز کی طرف آنا ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچہ کو اپنے ساتھ لے کر لائبریری جائیں اور وہاں اسے کتابیں دکھائیں۔ پھر کوئی کہانیوں والی کتاب منتخب کر کے، کتاب اس کے سامنے رکھیں اور اس میں الفاظ پر ہاتھ رکھتے جائیں۔ اس طرح بچہ نوٹ کرے گا کہ پیراگراف ختم ہوا، دوسرا شروع ہوا، پھر صفحہ ختم ہو کر دوسرا صفحہ پلٹا گیا۔ اس سے بچے کے اندر ایک تڑپ پیدا ہوگی کہ جو والدین پڑھ رہے ہیں، وہ بھی ان کی طرح پڑھنا چاہے گا۔ کیونکہ دو سے سات سال کا بچہ سب سے زیادہ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب آپ پڑھیں گے تو وہ اپنے آپ کو روک نہیں پائے گا اور کتاب لے کر خود پڑھنے کی کوشش کرے گا۔

بچوں کو نام سیکھنے کا طریقہ

جب آپ خود نہیں پڑھتے اور بچے کو کہتے ہیں کہ پڑھو، تو بچے کو خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی کسی کو کہے کہ پڑھو۔ جب لائبریری چند مرتبہ بچے کو لے جائیں، اس کے بعد چار فلیش کارڈ لیں، دو پر بچے کا اور دو پر اس کے بھائی یا بہن کا نام لکھیں۔ پھر اسے کہیں کہ یہ تمھارا نام ہے لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد اسے کارڈ دیں اور کہیں کہ اپنے ابو سے جا کر پوچھو کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے۔

جب ابو بھی اُسے یہی بتائیں گے کہ اس پر تمھارا نام لکھا ہے تو اسے یقین آ جائے گا کہ واقعی یہ میرا نام ہے۔ پھر ایک کارڈ جس پر بچہ کا نام لکھا ہوا ہے، اُٹھا کر بچے سے کہیں کہ باقی کارڈوں میں سے اس طرح کا کارڈ تلاش کریں جس پر آپ کا نام لکھا ہے۔ اگر بچہ نے اپنے نام والا کارڈ پہچان کر اُٹھا لیا، تو سمجھیں کہ اسے پڑھنا آ گیا۔ اس طریقے سے آپ ڈیڑھ سال کے بچے کو بھی پڑھنا سکھا سکتے ہیں۔ اس طرح چند مرتبہ مختلف ناموں کے ساتھ کریں تو بچہ چند الفاظ پڑھنے لگے گا۔

پھر اپنے ارد گرد کی چیزوں پر پرچیاں لگا کر ان چیزوں کے نام لکھیں، صرف نام لکھنے ہیں، الفاظ اور صفحات نہیں۔ پھر اسے بتائیں کہ یہ گلاس ہے، یہ دروازہ ہے، یہ میز ہے وغیرہ۔ جب چالیس کے قریب الفاظ ہو جائیں، تب لفظ کی مدد سے حروف تک پہنچ جائیں گے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ بورڈ پر یا کاپی پر بچہ کا نام لکھیں، مثلاً “افضل” اور اس کے نیچے دوسرا نام لکھیں، مثلاً “علی”۔ اب بچہ سے سوال کریں کہ ان دونوں میں بڑا کون سا ہے، وہ بتائے گا۔ پھر پوچھیں کیوں بڑا ہے، وہ جواب دے گا کہ اس میں چھ چیزیں ہیں۔ پھر اُسے بتائیں کہ یہ چھ چیزیں حروف تہجی کہلاتی ہیں۔ اب بتائیں کہ دونوں ناموں میں کون سے حروف ایک جیسے ہیں، اس طرح وہ الفاظ پر غور کر کے حروف تک پہنچ جائے گا۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کی اگلی قست یا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

ہوم اسکولنگ ضروریات، فوائد و مشکلات | بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط 12)

بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 4) بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ

بچوں کو اپنی مادری زبان میں سوال کرنا، اپنا مسئلہ بیان کرنا، یا کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کریں، تب انہیں انگریزی یا عربی سکھانی شروع کی جائے۔ اس تحریر میں ہم بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ سیکھیں گے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبان سکھانے کی ابتداء لکھنے اور پڑھنے سے نہ کی جائے بلکہ پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ویڈیوز دکھائیں اور آڈیوز سنائیں۔

بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ

جب بچے اپنی مادری زبان میں سوالات کرنا، اپنا مسئلہ بیان کرنا، یا کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کریں، تب انہیں انگریزی یا عربی سکھانے کا آغاز کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبان سکھانے کی ابتداء لکھنے اور پڑھنے سے نہ کی جائے بلکہ پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ویڈیوز دکھائیں اور آڈیوز سنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے دوسری زبان میں بات چیت شروع کریں۔

بچوں کو انگریزی سکھانے کے دوران ویڈیوز کا انتخاب

ایک اہم بات جو لازمی ہے کہ جب آپ بچوں کو انگریزی سکھانے کے لیے ویڈیوز دکھائیں گے، تو اس میں مغربی تہذیب بھی جھلک سکتی ہے۔ اس لیے ویڈیوز کا انتخاب بڑی احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔ ایک عام سوال یہ ہوتا ہے کہ انگریزی سکھانے کے لیے کس لہجے کا انتخاب کیا جائے: برٹش، امریکن یا اسٹریلین؟ یاد رکھیں کہ پوری دنیا میں پاکستانی اور انڈین لہجہ معیار تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ یہ لہجے سب کے لیے سمجھنے میں آسان ہوتے ہیں۔

زبان سیکھنے کے لیے سننے کا طریقہ

زبان سیکھنے کے چار ستونوں میں سے سننے والے ستون کے لیے چند اقدامات کیے جا سکتے ہیں:

  1. آڈیو بینک کا قیام: اپنے پاس ایک آڈیو بینک جمع کریں جو بچوں کی دلچسپی کے مطابق ہو۔ اس میں کہانیاں، خبریں، میچ کمنٹری (جو پاکستانی یا انڈین نے کی ہو)، گفتگو پر مبنی پروگرامز وغیرہ شامل کریں۔
  2. ویڈیوز یا آڈیوز کو سنانا: ویڈیو یا آڈیو پہلے خود سنیں، پھر بچوں کو دو یا تین مرتبہ سنائیں۔
  3. سننے کا ٹاسک دینا: بچوں کو سننے کا ٹاسک دیں۔ مثلاً، اگر آپ کہانی دکھا رہے ہیں، تو پہلی بار یہ ٹاسک دیں کہ کہانی ختم ہونے کے بعد وہ بتائیں کہ اس کہانی میں کتنے کردار تھے۔ دوسری بار یہ ٹاسک دیں کہ کرداروں نے کیا کیا۔ تیسری بار یہ ٹاسک دیں کہ کرداروں نے کیا کہا۔

بچوں کو انگریزی سکھانے کا بہترین طریقہ

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بہتر بولے، تو اُسے بہتر سنائیں۔ عام طور پر کارٹونز میں معیاری زبان استعمال نہیں ہوتی، اس لیے کارٹون کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر کریں۔

انگریزی یا عربی سکھانے کے لیے کون سی ڈکشنری استعمال کی جائے؟

ڈکشنری کے انتخاب کے حوالے سے مختلف قسم کی ڈکشنریاں موجود ہوتی ہیں۔ کچھ لکھاریوں کے لیے، کچھ ریسرچ کرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں۔ اس لیے ایلمنٹری یا بیسک لرنر کی ڈکشنری کا استعمال کریں۔

بچوں کو زبان سکھانے کی سرگرمی

ایک سرگرمی یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ جو زبان سکھانی ہو اس کا ایک پیراگراف لے کر اس میں سے بیس الفاظ خط کشیدہ کریں۔ پھر بچوں سے کہیں کہ میں پیراگراف تین مرتبہ پڑھوں گا: پہلی دفعہ پورا، دوسری دفعہ خط کشیدہ الفاظ حزف کروں گا، تیسری دفعہ حزف شدہ الفاظ پر رکھوں گا۔ آپ نے بتانا ہے کہ کون سے الفاظ حزف ہوئے ہیں۔ اس طرح کرنے سے بچوں کا سننے کا فن بہت مضبوط ہو جائے گا۔

تحریر:  محمد افضل کاسی کوئٹہ

وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن

اگر آپ اس سلسلے کا تیسرا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.

Pin It on Pinterest

Share This
Open chat
1
Scan the code
Hello
Can we help you?