by lcfpk.org | Aug 14, 2024 | LCF Articles, بچوں کی تعلیم و تربیت
بچوں کی تعلیم و تربیت (قسط نمبر 2)
بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟
آج ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کو ڈھائی سال کی عمر میں اسکول میں داخل کرادیا جاتا ہے اور بچے کو انگلش سکھانا شروع کر دیا جاتا ہے حالانکہ اس عمر میں بچہ نے اپنی مادری زبان بھی نہیں سیکھی ہوتی اور دوسرا ظلم ہم یہ کرتے ہیں کہ انگلش میڈیم اسکولوں میں بچے کو انگلش سکھانے کی خاطر ان کے دوسرے مضامین اسلامیات، سائنس، معاشرتی وغیرہ بھی انگلش میں پڑھاتے ہیں جس کی وجہ بچے کو نہ انگلش آتی ہے اور نہ ہی دوسرے مضامین۔
ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو (150) گھنٹے درکار ہوتے ہیں لیکن ہمارے تعلیمی نظام پر ایسے انگلش کا بھوت سوار ہے کہ نرسری سے لے کر میٹرک تک ہم تقریباً 1200 گھنٹے انگریزی کو اور دوسرے جو انگلش میں پڑھائے جاتے ہیں وہ شامل کر لیے جائے تو تقریباً 7000 ہزار گھنٹے انگلش زبان کو دیتے ہیں اور یہی حال مدارس کے طلبہ کا ہے وہ عربی کو تقریباً اتنا ہی وقت دیتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے بچوں کو انگریزی اور عربی نہیں آتی۔
مادری زبان نہ سیکھنے کا نقصان
اس کی وجہ صرف و صرف یہ ہے کہ بچہ نے اپنی مادری زبان نہیں سیکھی ہوتی اور ہم اُسے دوسری زبان لکھائی اور پڑھائی شروع کرادیتے ہیں جس میں بچہ کے سامنے ایسے الفاظ آتے ہیں جس کا بچہ نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا اور نہ سنے ہوتے ہیں اور نہ دیکھے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ رٹہ لگا کر ABC تو سیکھ جاتا ہے لیکن پڑھنے لکھنے سے بیزار ہوتا ہے۔
اس کی مثال ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کی تقریباً 9 کروڑ آبادی لکھنا پڑھنا جانتی ہے لیکن لکھتی پڑھتی نہیں۔ آخری مرتبہ قلم اُس وقت اُٹھایا تھا جب امتحان کا آخری پرچہ دیا تھا۔ اس کے بعد کسی موضوع پر کچھ لکھنے کی نوبت نہیں آتی اور آخری کتاب بھی وہی آخری کورس میں شامل ٹیکسٹ بک ہی تھی۔ اس کے بعد کوئی کتاب خریدنے کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوتی۔
بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟
لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم بچوں کو دوسری زبان سکھانے کے لیے بھی وہی طریقہ اختیار کریں جس طریقہ سے بچہ نے اپنی مادری زبان سیکھی تھی۔
بچہ کی زبان سیکھنے کے مراحل
اب سوال یہ ہے کہ بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟ تو اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں بچہ کے پیدائش سے لے کر اس کے صحیح باتیں شروع کرنے تک کے درجات کا جائزہ لینا ہو گا۔
پہلا درجہ: رونا
غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوا کہ بچہ کے زبان سیکھنے کا سب سے پہلا درجہ اس کا رونا ہے۔ وہ رونے کے ذریعے اپنی بات اپنی ماں کو سمجھاتا ہے۔ چھ ہفتے کے بچے کے رونے کی مختلف نوعیتیں ہوتیں ہیں۔ اس کی والدہ سمجھ جاتی ہے کہ اسے کیا مسئلہ ہے بھوک لگی ہے، پیٹ میں درد ہے، گرمی لگ رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے ایک سال کی عمر تک اگر بچہ ایک منٹ روتا رہے اور اُس کے رونے پر والدہ اُس کی طرف توجہ نہ دے اور اس طرح مسلسل ہوتا رہے تو اس بچہ کا دماغ متاثر ہوتا ہے اور اُس میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ وہ رونے کے ذریعہ اپنی بات سمجھانا چاہتا ہے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔
دوسرا درجہ: آوازیں نکالنا
دوسرے درجے میں بچہ رونے کے ساتھ کچھ اور آوازیں بھی نکالنا شروع کرتا ہے۔ جس میں وہ خوشی ظاہر کرتا ہے یا ویسے ہی آوازیں نکال رہے ہیں، اس لیے وہ بھی آوازیں نکالتا ہے جس پر ہم چار کام کرتے ہیں:
- ہم اس کی آوازوں کی طرف توجہ دیتے ہیں
- ہم خوش ہوتے ہیں
- ہم اُس کی طرف متوجہ ہو کر اُس کو دہراتے ہیں
- اور اُس کی آوازوں کو ہم کوئی خاص معنی دے دیتے ہیں کہ یہ مجھے پکار رہا ہے۔ ماں کہتی ہے کہ مجھے آواز دے رہا ہے۔
ان کاموں کے نتیجے میں بچہ مزید آوازیں نکالتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنی آوازوں کو دہرانا شروع کر دیتا ہے۔
تیسرا درجہ: نام بنانا
تیسرے درجے میں بچہ جب ٹھوس کھانوں پر آتا ہے تو وہ چیزوں کے ادھورے نام اور اپنے الفاظ بنا کر باتیں کرتا ہے جیسے پانی کو مم، دودھ کو دُو دُو وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت ہم بچہ کے الفاظ پر دھیان نہیں دیتے بلکہ ان کی غایت پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ مم بولتا ہے تو ہم پانی دے دیتے ہیں۔ اگر اس درجہ میں ہم بچوں کو غلطیاں پکڑنا شروع کریں اور ان سے کہیں کہ نہیں پانی بولو پھر پانی دونگی تو بچہ زندگی بھر صحیح بولنا نہ سیکھ پاتا۔ لیکن چونکہ ہم بچہ کی غلطیاں نہیں پکڑتے، اس وجہ سے وہ صحیح بولنا سیکھ جاتے ہیں۔
چوتھا اور آخری درجہ: صحیح بولنا
چوتھے اور آخری درجہ میں بچہ صحیح بولنا سیکھ جاتا ہے۔ اور اس کی علامت تین چیزیں ہیں:
- وہ اپنی مادری زبان میں اپنا مسئلہ بیان کر سکے
- وہ کون، کب، کیا، کیسے، کہاں، کیوں سے سوال کر سکتا ہے یا نہیں
- وہ کوئی واقعہ نقل کر سکتا ہے یا نہیں
وضاحت: زبان سیکھنے سے متعلق جتنی معلومات یہاں پیش کی گئی اور جو آئندہ ذکر کا جائے گی یہ سلیمان آصف صدیقی صاحب جو ERDC کے بانی ہیں، ان کی تحقیق ہے۔
تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
اگر آپ اس سلسلے کا پہلا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
by lcfpk.org | Aug 12, 2024 | بچوں کی تعلیم و تربیت
جمیل میرے پاس آیا اور کہنے لگا، “مفتی صاحب، بچے کے کان میں آذان دینی ہے۔” میں نے کہا کہ خود دے دو تو جواب دیا، “مجھے نہیں آتی۔” اسی طرح اکثر لوگ مجھ سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے سوال کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے مناسب لگا کہ پہلے بچوں کی تعلیم و تربیت پر قسط وار تحریریں لکھوں۔ زیر نظر تحریر اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ امید ہے پسند آئے گی۔ اپنے قیمتی مشوروں سے آگاہ کرتے رہیں۔
نومولود بچہ کے کان میں آذان:
بچوں کی تعلیم و تربیت میں سب سے پہے پیدائش کے وقت انکے کان میں آذان دینا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے نواسے حسن بن علی کے کان میں آذان پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کی ولادت ہوئی۔
ایک دوسری حدیث جو “کنز العمال” میں مسند ابویعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے، اس میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے نومولود بچہ کے داہنے کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و ترغیب دی اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ اُم الصبیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا (جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے)۔
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نومولود بچہ کا پہلا حق گھر والوں پر یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے کانوں اور کانوں کے ذریعہ اس کے دل و دماغ کو اللہ کے نام، اس کی توحید، اور ایمان و نماز کی دعوت کی پکار سے آشنا کریں۔
تخیک اور دعائے برکت
اس کے علاوہ،رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور صحبت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کے ساتھ عقیدت کا جو تعلق تھا، اس کا ایک ظہور یہ بھی تھا کہ نو مولود بچے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے جاتے تاکہ آپ ﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائیں اور کھجور یا ایسی ہی کوئی چیز چبا کر بچے کے تالو پر مل دیں اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیں جو خیر و برکت کا باعث ہو۔ اس عمل کو تخیک کہتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا کرتے تھے تو آپ ﷺ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے۔
کتب حدیث میں “تخیک” کے بہت سے واقعات مروی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ جب کسی گھرانے میں بچہ پیدا ہو تو چاہیئے کہ کسی مقبول اور صالح بندے کے پاس اسے لے جائیں تاکہ وہ اس کے لیے خیر و برکت کی دعائیں کریں اور “تخیک” بھی کرائیں۔ یہ ان سنتوں میں سے ہے جن کا رواج بہت ہی کم رہ گیا ہے۔
عقیقہ کرنا
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی خوشی میں ساتویں دن لڑکے کی پیدائش پر دو (2) بکرے اور لڑکی کی پیدائش پر ایک (1) بکری یا ایک (1) بکرے کی قربانی کرنا عقیقہ کہلاتا ہے۔ البتہ یہ عقیقہ فرض و واجب کی طرح لازمی نہیں بلکہ استحباب کے درجے میں ہے۔
اور لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ میں دو (2) بکریوں کی قربانی کرنا بھی کچھ ضروری نہیں ہے، ہاں اگر وسعت ہو تو دو (2) قربانیاں بہتر ہیں، ورنہ ایک کافی ہے۔
چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عقیقہ میں ایک ایک مینڈھے کی قربانی کی ہے۔
سر منڈوانا
اگر وسعت ہو تو ساتویں دن بچے کے بالوں کو منڈوا کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا بھی مستحب ہے۔
حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کر دو اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی کا صدقہ کر دو۔ ہم نے وزن کیا تو وہ ایک درہم کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے۔
سرپر زعفران لگانا
بچے کا سر منڈوانے کے بعد اس کے سر پر زعفران لگانا بھی حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہمارا یہ دستور تھا کہ جب کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ بکری یا بکرا ذبح کرتا اور اس کے خون سے بچے کے سر کو رنگ دیتا۔ پھر جب اسلام آیا تو (رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت کے مطابق) ہمارا طریقہ یہ ہو گیا کہ ہم ساتویں دن عقیقہ کی بکری یا بکرے کی قربانی کرتے اور بچے کا سر صاف کرا کے اس کے سر پر زعفران لگا دیتے۔
اچھا نام رکھنا
بچے کا اچھا نام رکھنا بھی ایک حق ہے۔ اور یہ بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کا حصہ ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
“حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے نام سے پکارے جاؤ گے (یعنی پکارا جائے گا فلاں بن فلاں) لہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو۔”
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے ساتھ ساتویں دن بچے کا نام بھی رکھا جائے۔ لیکن بعض احادیث سے آپ ﷺ کا عمل بعض بچوں کا نام پہلے ہی دن رکھنا معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا پیدائش کے دن یا ساتویں دن سے پہلے بچے کا نام رکھنے میں مضائقہ نہیں۔
تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔
by lcfpk.org | Aug 9, 2024 | LCF Articles
اندھے شخص کا سبق آموز واقعہ
یہ ایک اسلامی کہانی ہے جوہمارے معاشرے کع لیےنہایت سبق آموز ہے۔
ایک نابینا شخص ایک عمارت کی دہلیز پر بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے سامنے اپنی ٹوپی رکھی اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا بورڈ رکھا جس پر لکھا ہوا تھا: “میں اندھا ہوں، براہ کرم میری مدد کریں۔” ایک شخص اس اندھے کے پاس سے گزرا، دیکھا کہ اس کی ٹوپی میں صرف چند پیسے ہیں، اس نے اپنے جیب سے کچھ اور پیسے ڈال دیے، اور پھر چھپ کر اندھے شخص کا بورڈ اٹھا کر اس پر ایک اور جملہ لکھا اور اسے اپنی جگہ پر رکھ کر چل پڑا۔
تھوڑی دیر بعد اس نابینا شخص نے دیکھا کہ اس کی ٹوپی پیسوں اور نوٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہ حیران ہوا اور ایک راہگیر کو روک کر پوچھا کہ بورڈ پر کیا لکھا ہوا ہے؟ راہگیر نے بتایا: “ہم موسم بہار میں ہیں لیکن میں اس کی خوبصورتی نہیں دیکھ سکتا ہوں۔”
نظریہ تبدیل کریں، نتیجہ بدل جائے گا
پہلے اور دوسرے جملے میں واضح فرق تھا، حالانکہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ مالک نابینا ہے۔ مگر دوسرا جملہ لوگوں کے دلوں کو چھونے والا تھا اور انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب معاملات اپنے رخ پر ٹھیک نہیں چلتے، تو ہمیشہ اپنے وسائل اور طریقہ کار کو تبدیل کریں کیونکہ ہمیشہ ایک بہتر راستہ موجود ہوتا ہے۔
کرسٹل اسٹور کے مالک کی کامیابی کی کہانی
مجھے ایک کرسٹل اسٹور کے مالک کا واقعہ یاد آیا۔ وہ کرسٹل کی مختلف اشیاء بیچتا تھا، اور اس تجارت میں اس نے کافی عرصہ لگایا تھا، مگر اس کی تجارتی سطح روز بروز نیچے گرتی جا رہی تھی۔ اسٹور کے مالک نے اس تجارتی بحران کے بارے میں خاص طور پر کچھ نہیں سوچا تھا، یہاں تک کہ ایک دن ایک غریب نوجوان لڑکا اس کے پاس آیا، اور اس سے کہا کہ میں صرف دوپہر کے کھانے کے عوض آپ کے دکان کے سامان کی صفائی کروں گا۔ مالک نے منظور کیا، اور نوجوان نے صفائی کا کام شروع کیا۔
ابھی مکمل صفائی نہیں ہوئی تھی کہ خریدار کرسٹل اسٹور کی طرف آنے لگے۔ مالک اس نوجوان کے کام سے متاثر ہوا اور اسے باقاعدہ ملازم رکھ لیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نوجوان نے اپنے مالک کو مشورہ دیا کہ وہ ایک الماری بنوا کر اسٹور کے باہر لگائے تاکہ پروڈکٹ کو خریداروں کے دلوں کو لبھانے کے لیے پیش کیا جا سکے۔ طویل سوچ وبچار کے بعد مالک نے الماری بنوا دی۔ چند دن بعد گاہکوں کی تعداد اور فروخت میں اضافہ ہوا۔
تبدیلی کی اہمیت اور سوچ کا نیا زاویہ
نوجوان کی ہمت نے مالک کو نیا زاویہ دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نوجوان نے ایک اور حیرت انگیز تجویز دی: “ہم آنے والے گاہکوں کو تازہ پتی والی چائے کرسٹل کے پیالوں میں پیش کریں گے تاکہ وہ قریب سے کرسٹل کی خوبصورتی کو دیکھ سکیں۔” لڑکے کے اصرار کے بعد مالک نے اتفاق کیا، اور جیسے ہی انہوں نے یہ آئیڈیا آزمایا، گاہکوں کا تانتا بندھ گیا۔ ان کی تجارت کو اس مثبت سوچ کی وجہ سے خوب ترقی ملی۔
آپ کی زندگی میں تبدیلی کی ضرورت؟
اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اسٹور کے مالک نے کبھی تبدیلی کا نہیں سوچا، بلکہ اپنے خسارے پر راضی ہوگئے تھے۔ اگر ہم بغور جائزہ لیں تو موجودہ کامیابی میں تمام قسم کے افکار بیرون سے آئے ہیں جو کامیابی کا سبب بنے۔ اگر آپ بھی اسی طرح کی صورتحال میں ہیں، تو یہ وقت ہے کہ آپ اپنی سوچ کو تبدیل کریں اور اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے نئے طریقوں پر غور کریں۔
اہم سوالات:
- کیا آپ نے اپنی زندگی کا کوئی مقصد بنایا ہے؟
- کیا آپ نے اپنے ہدف کے حصول کے لیے نئے طریقے آزمائے ہیں؟
- کیا آپ نے اپنے اعتماد مند ساتھیوں سے مشورہ کیا ہے؟
- کیا آپ کے پاس اتنی جرأت ہے کہ آپ اپنے آپ کو تبدیل کریں؟
نتیجہ:
اپنے ان سوالات کے جوابات لکھیں، غور کریں، اور معلوم کریں کہ اب آپ کے کرنے کا کام کیا ہے۔
اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں-
by lcfpk.org | Aug 7, 2024 | LCF Articles
جنون کی نہر کا عذاب
کہا جاتا ہے کہ پاگل پن کا طاعون کسی شہر کے ایک نہر میں نازل ہوا تھا، اور جب بھی کوئی اس نہر سے پانی پیتا تھا تو وہ پاگل ہو جاتا تھا۔ پاگل لوگ ایک ایسی زبان بولتے جو عقلمند لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے، اور آئے روز پاگلوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔
بادشاہ سلامت نے اس وباء کا خطرہ اس وقت بھانپ لیا جب طاعون کی بیماری کا پھیلاؤ شاہی محل کی دہلیز پر آپہنچا۔ ایک دن صبح، ملکہ بھی پاگل ہو کر پاگلوں کے ایک گروہ سے مل گئی اور علی الاعلان بادشاہ کے پاگل پن کی شکایت کی۔
بادشاہ نے وزیر سے کہا
: “شاہی دربان چی کہاں تھے؟”
وزیر
: “بادشاہ سلامت، دربان چی کو جنون کی بیماری ملکہ سے پہلے لگی ہوئی تھی۔”
بادشاہ
: “تو فوراً ڈاکٹر کو بلا لو۔”
وزیر
: “وہ تو عرصہ ہوا جنون کی بیماری کا شکار ہوا ہے۔”
بادشاہ:
“یہ کیسی آفت ہے؟ کیا شہر میں کوئی اس بلا سے بچا ہے؟”
وزیر
: “بادشاہ سلامت، میرے اور آپ کے علاوہ پورے شہر میں کوئی نہیں بچا ہے۔”
بادشاہ
: “اے میرے مولیٰ، مجھے پاگلوں کی دنیا کی حکمرانی کی آزمائش سے بچا۔”
وزیر: “بادشاہ سلامت! معذرت کے ساتھ، وہ تو پورے مملکت میں یہ افواہ پھیلا چکے ہیں کہ ہم عقل مند ہیں، اور پورے ملک میں صرف دو پاگل ہیں: بادشاہ اور اس کے وزیر۔”
بادشاہ
: “یہ تو بکواس کر رہے ہیں۔ نہر جنون سے پانی وہ پیئے ہیں اور طعنے ہمیں دے رہے ہیں۔”
وزیر
: “بادشاہ سلامت، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے نہر جنون سے پانی پاگل پن سے بچاؤ کے لیے پیا ہے، البتہ صرف دو آدمی، بادشاہ اور اس کا وزیر، جنہوں نے اس نہر سے پانی نہیں پیا، وہ پاگل پن کے شکار ہوگئے ہیں۔”
وزیر
: “بادشاہ سلامت، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری حیثیت ان کے بھاری اکثریت کے سامنے ریت کے دو ذروں سے زیادہ نہیں ہے، اور پوری دنیا بھی انہیں عقل مند سمجھتی ہے۔”
بادشاہ
: “وزیر صاحب، تو مجھے بھی اس نہر جنون سے پلا دو، اس لیے کہ ‘پاگل پن تو یہ ہے کہ کوئی آدمی پاگلوں کی دنیا میں عاقل ہو کر رہے۔'”
تبدیلی کی اہمیت اور خود پر اعتماد
یقیناً ایسے وقت میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ارادے اور منصوبے بلند وبالا ہوں اور ان کی رائے باقی دنیا سے مختلف ہو۔ ایسے وقت میں کسی سے متاثر ہوئے بغیر اور نہر جنون سے پانی پیئے بغیر اپنے موقف پر ثابت قدم رہنا، فضل خداوندی ہے۔
کیا کبھی آپ سے کسی نے کہا ہے: “کہ باقی پوری دنیا غلط ہے اور صرف آپ صحیح رائے رکھتے ہیں؟” اس کا مطلب یہ ہے کہ “وہ آپ کو نہر جنون سے پانی پینے کی دعوت دے رہا ہے۔”
سوچیئے! جب آپ اپنے دفتر یا ورکشاپ میں داخل ہوتے ہیں اور آپ کا کوئی ایسا ساتھی جو عادتاً دیر سے آتا ہے اور بہت معمولی منصوبے پر عمل پیرا ہوتا ہے، کیا آپ اس سے متاثر ہو کر اپنے بلند وبالا پرواز چھوڑ دیتے ہیں اور معمولی اور چھوٹے منصوبوں پر اکتفا کرتے ہیں؟
تاریخی مثالیں اور سبق
کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کسی غیر متوقع شخص کی زبان پر کلمہ حق جاری کر دیتا ہے، اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی صاحب الرائے کی سوچ کسی نتیجے پر پہنچ جاتی ہے لیکن عام لوگوں کی رسائی اس تک سینکڑوں سال بعد ہوتی ہے، جیسا کہ اٹالین مشہور سائنسدان گلیلیو (1564ء – 1642ء) نے یہ انکشاف کیا کہ زمین کروی (گول شکل) ہے، جس کے نتیجے میں انہیں جیل بھیجا گیا۔ وہ وہیں مر گئے، اور 350 سال بعد ان کی بات تک دوسرے سائنسدانوں کی رسائی ہوئی، معلوم ہوا کہ اس وقت گلیلیو کی بات ٹھیک تھی۔
خود پر اعتماد اور صحیح فیصلہ
کیا ذاتی رائے رکھنا ضروری ہے، اور اس پر اصرار کرنا صحیح طرز عمل ہے؟
پرانے زمانے میں ایک مضمون نگار تھا جس کا تجربہ کم تھا، وہ ہمیشہ غیر سنجیدہ آراء قائم کرکے اپنے مضامین سے لوگوں کو پریشان کرتا تھا، یہاں تک کہ انہیں معزول کیا گیا۔ اور واقعی ایک عرصہ بعد پتہ چلا کہ ان کی ساری باتیں بکواس تھیں۔ تو ایسے مضمون نگار کو چاہیے کہ وہ نہر جنون کے پانی پیئے۔
اسی طرح ہٹلر کی کم عقلی لے لو جب اس نے اپنے وقت کے عالمی استعمار برطانیہ، روس، اور بڑے معاشی اور اقتصادی قوت امریکہ سب کو بیک وقت چیلنج کر دیا، حالانکہ جرمنی کی نہ معاشی حالت اس وقت ٹھیک تھی اور نہ ہی وہ زیادہ جنگی تجربات کے حامل تھے۔ وہ یہ فیصلہ کر گئے کہ ہم ان قوتوں کے ساتھ لڑیں گے آخری فوجی کے بقائے تک۔ یقیناً ہٹلر نے زہر خواری اور خودکشی کے مقابلے میں تمنّا کی ہوگی کہ کاش وہ جنون کے پانی کے بدلے عقل مندی کا وہ پانی پیتا جو ان کے مشیروں نے پیا تھا۔
فیصلہ کرنا اور ثابت قدم رہنا
تو حل کیا ہے؟ جنون کا پانی پینا یا چھوڑ دینا؟
حقیقت حال یہ ہے کہ گلاس ایک قسم نہیں بلکہ دو قسم کے ہیں:
-
عقل والا گلاس
- : جو درست رائے، حکمت، اور عقل مندی پر مشتمل ہے۔ ضد چھوڑ کر بلا جھجھک ایسے گلاس سے پانی پی کر ہوشیاروں کی جماعت میں شامل ہونا انتہائی مناسب اقدام ہے۔
-
جنون والا گلاس:
- جس میں آپ کو ہر وہ چیز ملے گی جو عام لوگوں کے طرز معاشرت میں موجود ہوتی ہے، خواہ وہ کتنا ہی غلط ہو۔ کبھی کبھی اس کے دائرے میں خوف، ذلت کے ساتھ ساتھ ایسے خطرناک موڑ بھی ہوتے ہیں جو بظاہر ترقی کی راہ دکھائی دیتے ہیں مگر اس سے انسان ایک گہری کھائی میں جا کر ہلاک ہو جاتا ہے، حالانکہ اس طرز زندگی کو عام مقبولیت بھی حاصل ہے۔
اگر آپ نے بھی اسے اپنا لیا تو گویا آپ بھی ان لوگوں کی صفوں میں جا ملے جو جنون کے شکار ہیں اور ان کی دلکی آنکھ کو جہالت کی تاریکیوں نے کورا کر دیا۔
اور اگر آپ اسے چھوڑ دیں گے تو ممکن ہے کہ لوگ آپ کا عارضی بائیکاٹ کردیں گے، مگر یہ کہ آپ حق پر ہوں گے۔ لیکن اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اپنی پختگی اور حکمت پر کتنا اعتماد کرتے ہیں، اور جو کچھ آپ مانتے ہیں اسے ثابت کرنے میں آپ کتنے پُرعزم ہیں۔
نتیجہ
فیصلہ کر کے اس پر ڈٹے رہنے میں، جبکہ مخالفین کی تعداد زیادہ ہو، احتیاط برتنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ بعض اوقات کچھ لوگ آپ کے جذبات کی تائید ایسے موقع پر کرتے ہیں جہاں آپ اپنے فیصلے کی درستگی ثابت نہیں کر سکتے، تو آپ لازمی ایک بند گلی میں ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے جہاں فیصلے پر عمل درآمد کی استطاعت نہ ہو، وہاں فیصلہ لینے کا فائدہ بھی نہیں ہے۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو جنون کے گلاس سے پانی پینے کے ہمیشہ معارض رہتے ہیں لیکن وہ لوگ سوائے مخالفت کے کچھ نہیں جانتے ہیں۔ لوگوں کا ان پر اعتماد اس لیے کمزور ہوجاتا ہے کہ وہ جو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اسے ثابت کرنے سے قاصر ہیں، یا اس لیے کہ ان کے پاس اپنی رائے و سوچ ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
اگر آپ اس طرح کی مزید تحریریں اردو زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔
by lcfpk.org | Feb 28, 2024 | LCF Articles
انویسٹمنٹ اینڈ ریٹرن
ریحان محمود
کوئٹہ کے چار فقیروں سے انٹرویو/بات چیت کی جو آپ کے سامنے پیش ہے۔
1- ایک دس گیارہ سال کی بچی فقیر بچی نے بتایا کہ جمعہ کے روز کو چھوڑ کر روزانہ پندرہ سو روپے بطور ٹارگٹ جمع کرتی ہے۔ جبکہ کہ جمعہ کے دن چونکہ عوام سڑکوں پر کم ہوتی ہے لہٰذا جمعہ کے دن کا ٹارگٹ پانچ سو روپیہ ہے۔ یہ کام وہ دوپہر ایک بجے سے مغرب کی اذان تک کرتی ہے۔ اس بچی کی ماہانہ آمدنی چالیس سے پینتالیس ہزار ہے۔ اور اس کے گھر کے چار بچے اور بچیاں یہی کام کرتے ہیں۔
1- ایک ٹانگ سے معذور شخص اور ایک دس گیارہ سال کا بچہ ملکر روزانہ دو سے ڈھائی ہزار کی کمائی کرتے ہیں۔ کوئی ناغہ نہیں کرتے۔ دو سو روپیہ روزانہ بچے کو ملتے ہیں بطور جیب خرچ۔ باقی لنگڑا شخص لیتا ہے۔ پہلے وہ یہ کام لاڑکانہ میں کرتے تھے لیکن وہاں سے بھاگ کر کوئٹہ آئے۔ ٹانگ کیسے معذور ہوئی اس بارے اس شخص کو کچھ یاد نہیں۔ ماہانہ آمدنی ساٹھ ہزار سے زائد۔
3- ایک مزدور حلیہ کا شخص، جسکا سلوگن ہے”آج بھی کام نہیں ملا”۔ اوقات کار مغرب کی اذان سے لیکر رات دس گیارہ بجے تک۔ روزانہ آمدن چار ہزار سے پانچ ہزار تک۔ ماہانہ آمدن تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے۔
4- ایک عورت بمہ چار بچے، اوقات کار دوپہر ایک بجے تا رات آٹھ نو بجے تک۔ روزانہ کمائی تین ہزار سے چار ہزار۔ کوئی ناغہ نہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کا دیا کپڑا، سامان، کھانا، راشن وغیرہ الگ شامل ہیں۔ ماہانہ آمدنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے۔
اس کام میں کوئی انویسٹمنٹ نہیں ہے, نہ کوئی تعلیم، نہ کوئی کورس، نہ کسی اکیڈمی کو جوائن کرنا ہے۔
ایک مرتبہ ایک کوئٹہ میں مانگنے والا کراچی صدر کے ہوٹل میں ساتھ والے کمرے میں رہائش پذیر تھا۔ پہچان لینے اور اصرار کرنے پر بولا کیوں ہم چھٹیاں نہیں منا سکتے؟
سوچئے، کیا ہم ایسے بہروپئے افراد کو اپنی کمائی سے خدا ترسی میں آ کر کتنا دے رہے ہیں اور ان کی وجہ سے جو اطراف میں، دوستوں رشتے داروں میں ضرورت مند افراد ہیں جو سفید پوش لوگ ہیں وہ اپنی عزت نفس کو بچانے کی خاطر کس قدر تنگ دستی میں مبتلا ہیں۔ خدارا ایسے کاروباری فقیروں کو کچھ نہیں دیں۔ انھیں کام دینے کی آفر کریں اگر قبول کریں تو ان سے کام لیں ورنہ چلتا کریں۔
اپنی زکات خیرات مستند اداروں کو دیں جو کار خیر کے کام کر رہے ہیں۔ جو عوام میں موجود بیروزگاروں، یتیموں، مسکینوں، ناداروں، طالب علموں کے لئے کام کر رہے ہیں۔ آپ کا ایک ایک روپیہ ملکر وہ کام کر سکتا ہے جو پروفیشنل فقیروں کے پاس چلے جانے سے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔