تحریر: محمد افضل کاسی کوئٹہ
وائس چیرمین : لائف چینجنگ فائونڈیشن
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
والدین اور اساتذہ کو آج کل جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ طلبہ اور بچے پڑھتے نہیں ہیں۔ انہیں لاکھ مرتبہ سمجھایا جائے، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اسی لیے آج ہم اس موضوع پر چند گزارشات پیش کریں گے جن پر اگر عمل کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔
سب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے گھر میں اور اسکول، کالج اور مدارس میں لائبریریوں کو فروغ دیں۔ آج سے چند سو سال پہلے تک جب مسلمان عروج پر تھے، تو مسلمانوں کے گھروں میں دو جگہیں مختص ہوتی تھیں: ایک مسجد کے لیے، جہاں گھر والے اپنی نمازیں اور ذکر و اذکار کرتے، اور ایک مکتبہ یعنی لائبریری کے لیے، جہاں ہر گھر والے اپنی استطاعت کے مطابق کتابیں رکھتے اور انہیں پڑھتے تھے۔ جب سے مسلمانوں کے گھروں سے یہ دو چیزیں نکل گئیں، اسی دن سے مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا۔
اس لائبریری میں کہانیوں، سوانح حیات، جغرافیہ، شاعری، لغات اور مختلف موضوعات کی کتابیں ہونی چاہئیں۔
دوسرا کام یہ کیا جائے کہ بچوں سے کہا جائے کہ وہ چند قسم کی نوٹ بکس بنائیں جو زندگی بھر کے لیے ہوں۔ ایک ختم ہو جائے تو دوسرا نوٹ بک بنایا جائے جس پر جلد دوم، پھر جلد سوم، اور یہ زندگی بھر چلتا رہے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں بچوں سے الگ الگ کاپیاں بنوائی جاتی ہیں، ہر موضوع کے لیے، اور وہ صرف ایک سال کے لیے ہوتی ہیں۔ جیسے ہی سال ختم ہوتا ہے، وہ کاپیاں فروخت کر دی جاتی ہیں۔ لیکن جو کاپیاں آپ بنوائیں گے، وہ زندگی بھر چلتی رہیں گی۔
جب آپ نے لائبریری بنائی، مطالعہ شروع کیا، اور تین قسم کی کاپیاں تیار کر لیں، تو یہ کام کریں کہ جو آپ نے پڑھا ہے، وہ بچوں کے ساتھ شئیر کریں۔ انہیں بتائیں کہ آپ کی پسندیدہ کتابیں کون سی ہیں اور آپ کس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ جب تک بچوں کو معلوم نہ ہو کہ ان کے والدین یا اساتذہ کی پسندیدہ کتابیں کون سی ہیں، وہ پڑھنے میں دلچسپی نہیں لیں گے۔
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
زبان سیکھنے کا ایک اہم ستون پڑھنا ہے کیونکہ جو انسان جتنا زیادہ پڑھے گا، وہ اُتنا زیادہ اُس زبان کو سیکھے گا۔ لیکن بچوں کو پڑھنا سکھانے میں احتیاط ضروری ہے۔ اگر ابتدا حروف تہجی سے کی جائے، تو بچے پڑھنے سے بیزار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسی چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے جو انہیں بے مقصد لگتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کو زبان سکھانے کی ابتدا حروف تہجی سے کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے اکثر بچے اپنی تعلیمی زندگی کے بعد کتابیں پڑھنے سے دور ہو جاتے ہیں۔ پڑھنے کا یہ روایتی طریقہ بچوں کو بور کر دیتا ہے۔ حروف تہجی سے شروع کرنے کے بجائے، ہمیں ایک مؤثر طریقہ اپنانا چاہیے تاکہ بچے کا پڑھائی میں شوق بڑھے۔
کسی بھی زبان کو سکھانے کے لیے ہمیں کل سے جز کی طرف آنا ہوگا۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچے کو اپنے ساتھ لائبریری لے جائیں اور وہاں کتابیں دکھائیں۔ پھر کوئی دلچسپ کہانیوں والی کتاب منتخب کریں اور اسے بچے کے سامنے رکھیں۔ کتاب میں الفاظ پر ہاتھ رکھتے جائیں تاکہ بچہ سیکھے کہ پیراگراف کیسے ختم ہوتا ہے، اور صفحہ پلٹنے کا عمل کیسے ہوتا ہے۔
جب آپ خود کتاب پڑھتے ہیں، تو بچہ آپ کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 2 سے 7 سال کی عمر کے بچے دوسروں کی نقل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر آپ خود پڑھیں گے، تو بچہ بھی کتاب اُٹھا کر پڑھنے کی کوشش کرے گا۔ اس عمل سے بچے کے اندر پڑھنے کی دلچسپی بڑھتی ہے۔
بچے کو کتابوں سے متعارف کروانے کے بعد، آپ فلش کارڈز استعمال کر سکتے ہیں۔ چار فلش کارڈز لیں: دو پر بچے کا نام اور دو پر اس کے بہن یا بھائی کا نام لکھیں۔ پھر بچے سے کہیں کہ وہ اپنے ابو سے پوچھے کہ اس پر کیا لکھا ہے۔ جب اس کے والدین بھی اسے یہی بتائیں گے کہ یہ اس کا نام ہے، تو اسے یقین آ جائے گا۔
فلش کارڈز سے چند الفاظ سکھانے کے بعد، آپ ارد گرد کی اشیاء پر نام لکھ کر لگا سکتے ہیں۔ جیسے دروازہ، میز، یا گلاس۔ بچے کو دکھائیں کہ کس چیز کا کیا نام ہے، اور اسے الفاظ کی پہچان کروائیں۔ جب وہ تقریباً چالیس الفاظ سیکھ لے، تو الفاظ کی مدد سے اسے حروف تک پہنچائیں۔
اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ بورڈ یا کاپی پر بچے کا نام مثلاً ” افضل خان ” لکھیں اور اس کے نیچے دوسرا نام جیسے ” علی ” لکھیں۔ اب بچے سے پوچھیں کہ ان دونوں میں سے کون سا نام بڑا ہے؟ وہ بتائے گا کہ “افضل خان” بڑا ہے۔ پھر اس سے پوچھیں کہ کیوں بڑا ہے؟ وہ جواب دے گا کہ اس میں زیادہ حروف ہیں۔ تب آپ اسے بتائیں کہ یہ حروف تہجی کہلاتے ہیں۔ پھر بچے سے پوچھیں کہ دونوں ناموں میں کون سے حروف ایک جیسے ہیں۔ اس طرح بچہ الفاظ پر غور کرتے ہوئے حروف کی پہچان سیکھنے لگے گا۔
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
اس تحریرمیں ہم بچوں کو پڑھانےکا صحیح طریقہ سیکھیِنگے۔ کیونکہ زبان سیکھنے کا ایک اہم ستون پڑھنا ہے۔ جتنا زیادہ کوئی شخص پڑھے گا، اُتنا زیادہ وہ زبان سیکھے گا۔ تاہم، بچوں کو پڑھنا سکھانے کے لیے زبان کی حروف تہجی سے آغاز نہ کریں ورنہ بچے بیزار ہو سکتے ہیں۔
زبان سیکھنے کا ایک ستون پڑھنا ہے کیونکہ جتنا زیادہ انسان پڑھے گا، اُتنا زیادہ وہ زبان سیکھے گا۔ لیکن اس میں خیال رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کو پڑھنا سکھانے کے لیے زبان کی حروف تہجی سے ابتداء نہ کی جائے ورنہ بچے پڑھنے سے بیزار ہو سکتے ہیں، کیونکہ بچوں کی نفسیات میں یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے جو ان کو بے مقصد لگتی ہیں۔ اس تحریر میں ہم بچوں کو پڑھنے کے مؤثر طریقے سیکھیں گے تاکہ ان کی زبان سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
ہمارے معاشرے میں چونکہ بچوں کو زبان سکھانے کے لیے ابتداء حروف تہجی سے ہوتی ہے، اس وجہ سے اکثر بچے اپنی تعلیمی زندگی کے بعد کتابیں نہیں پڑھتے۔ پڑھنے کا سفر ہمارے معاشرے میں کچھ یوں ہوتا ہے: پہلے حروف تہجی، پھر الفاظ، اس کے بعد جملے، پھر پیراگراف، پھر مضمون، اور آخر کار کتاب اور لائبریری۔ یہ سفر بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص تالاب میں تیرنا سیکھنا چاہے اور ایک مرتبہ جا کر ہاتھ اس میں ڈالے، پھر دوسرا ہاتھ، پھر پاؤں، پھر دوسرا پاؤں، پھر سر، اور آخر میں پورا بدن، جو کہ نہایت تکلیف دہ اور وقت ضائع کرنے والا عمل ہے۔
کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے کل سے جز کی طرف آنا ہوگا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچہ کو اپنے ساتھ لے کر لائبریری جائیں اور وہاں اسے کتابیں دکھائیں۔ پھر کوئی کہانیوں والی کتاب منتخب کر کے، کتاب اس کے سامنے رکھیں اور اس میں الفاظ پر ہاتھ رکھتے جائیں۔ اس طرح بچہ نوٹ کرے گا کہ پیراگراف ختم ہوا، دوسرا شروع ہوا، پھر صفحہ ختم ہو کر دوسرا صفحہ پلٹا گیا۔ اس سے بچے کے اندر ایک تڑپ پیدا ہوگی کہ جو والدین پڑھ رہے ہیں، وہ بھی ان کی طرح پڑھنا چاہے گا۔ کیونکہ دو سے سات سال کا بچہ سب سے زیادہ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب آپ پڑھیں گے تو وہ اپنے آپ کو روک نہیں پائے گا اور کتاب لے کر خود پڑھنے کی کوشش کرے گا۔
جب آپ خود نہیں پڑھتے اور بچے کو کہتے ہیں کہ پڑھو، تو بچے کو خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی کسی کو کہے کہ پڑھو۔ جب لائبریری چند مرتبہ بچے کو لے جائیں، اس کے بعد چار فلیش کارڈ لیں، دو پر بچے کا اور دو پر اس کے بھائی یا بہن کا نام لکھیں۔ پھر اسے کہیں کہ یہ تمھارا نام ہے لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد اسے کارڈ دیں اور کہیں کہ اپنے ابو سے جا کر پوچھو کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے۔
جب ابو بھی اُسے یہی بتائیں گے کہ اس پر تمھارا نام لکھا ہے تو اسے یقین آ جائے گا کہ واقعی یہ میرا نام ہے۔ پھر ایک کارڈ جس پر بچہ کا نام لکھا ہوا ہے، اُٹھا کر بچے سے کہیں کہ باقی کارڈوں میں سے اس طرح کا کارڈ تلاش کریں جس پر آپ کا نام لکھا ہے۔ اگر بچہ نے اپنے نام والا کارڈ پہچان کر اُٹھا لیا، تو سمجھیں کہ اسے پڑھنا آ گیا۔ اس طریقے سے آپ ڈیڑھ سال کے بچے کو بھی پڑھنا سکھا سکتے ہیں۔ اس طرح چند مرتبہ مختلف ناموں کے ساتھ کریں تو بچہ چند الفاظ پڑھنے لگے گا۔
پھر اپنے ارد گرد کی چیزوں پر پرچیاں لگا کر ان چیزوں کے نام لکھیں، صرف نام لکھنے ہیں، الفاظ اور صفحات نہیں۔ پھر اسے بتائیں کہ یہ گلاس ہے، یہ دروازہ ہے، یہ میز ہے وغیرہ۔ جب چالیس کے قریب الفاظ ہو جائیں، تب لفظ کی مدد سے حروف تک پہنچ جائیں گے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ بورڈ پر یا کاپی پر بچہ کا نام لکھیں، مثلاً “افضل” اور اس کے نیچے دوسرا نام لکھیں، مثلاً “علی”۔ اب بچہ سے سوال کریں کہ ان دونوں میں بڑا کون سا ہے، وہ بتائے گا۔ پھر پوچھیں کیوں بڑا ہے، وہ جواب دے گا کہ اس میں چھ چیزیں ہیں۔ پھر اُسے بتائیں کہ یہ چھ چیزیں حروف تہجی کہلاتی ہیں۔ اب بتائیں کہ دونوں ناموں میں کون سے حروف ایک جیسے ہیں، اس طرح وہ الفاظ پر غور کر کے حروف تک پہنچ جائے گا۔
اگر آپ اس سلسلے کی اگلی قست یا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
بچوں کو اپنی مادری زبان میں سوال کرنا، اپنا مسئلہ بیان کرنا، یا کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کریں، تب انہیں انگریزی یا عربی سکھانی شروع کی جائے۔ اس تحریر میں ہم بچوں کو انگریزی یا عربی سکھانے کا طریقہ سیکھیں گے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبان سکھانے کی ابتداء لکھنے اور پڑھنے سے نہ کی جائے بلکہ پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ویڈیوز دکھائیں اور آڈیوز سنائیں۔
جب بچے اپنی مادری زبان میں سوالات کرنا، اپنا مسئلہ بیان کرنا، یا کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کریں، تب انہیں انگریزی یا عربی سکھانے کا آغاز کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبان سکھانے کی ابتداء لکھنے اور پڑھنے سے نہ کی جائے بلکہ پہلے انہیں زیادہ سے زیادہ ویڈیوز دکھائیں اور آڈیوز سنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے دوسری زبان میں بات چیت شروع کریں۔
ایک اہم بات جو لازمی ہے کہ جب آپ بچوں کو انگریزی سکھانے کے لیے ویڈیوز دکھائیں گے، تو اس میں مغربی تہذیب بھی جھلک سکتی ہے۔ اس لیے ویڈیوز کا انتخاب بڑی احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔ ایک عام سوال یہ ہوتا ہے کہ انگریزی سکھانے کے لیے کس لہجے کا انتخاب کیا جائے: برٹش، امریکن یا اسٹریلین؟ یاد رکھیں کہ پوری دنیا میں پاکستانی اور انڈین لہجہ معیار تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ یہ لہجے سب کے لیے سمجھنے میں آسان ہوتے ہیں۔
زبان سیکھنے کے چار ستونوں میں سے سننے والے ستون کے لیے چند اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بہتر بولے، تو اُسے بہتر سنائیں۔ عام طور پر کارٹونز میں معیاری زبان استعمال نہیں ہوتی، اس لیے کارٹون کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر کریں۔
ڈکشنری کے انتخاب کے حوالے سے مختلف قسم کی ڈکشنریاں موجود ہوتی ہیں۔ کچھ لکھاریوں کے لیے، کچھ ریسرچ کرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں۔ اس لیے ایلمنٹری یا بیسک لرنر کی ڈکشنری کا استعمال کریں۔
ایک سرگرمی یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ جو زبان سکھانی ہو اس کا ایک پیراگراف لے کر اس میں سے بیس الفاظ خط کشیدہ کریں۔ پھر بچوں سے کہیں کہ میں پیراگراف تین مرتبہ پڑھوں گا: پہلی دفعہ پورا، دوسری دفعہ خط کشیدہ الفاظ حزف کروں گا، تیسری دفعہ حزف شدہ الفاظ پر رکھوں گا۔ آپ نے بتانا ہے کہ کون سے الفاظ حزف ہوئے ہیں۔ اس طرح کرنے سے بچوں کا سننے کا فن بہت مضبوط ہو جائے گا۔
اگر آپ اس سلسلے کا تیسرا حصہ یا قسط پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
اس تحریر میں ہم بچوں کو عربی یا انگلش سکھانے کے اصولوں کے بارے میں بات کرینگے۔
اصطلاحات کی وضاحت