آج کی اچھی بات – 7 ستمبر 2025 | خوبصورت قول
آج کی اچھی بات۔

آج کی اچھی بات۔

پچھلے مضمون میں، ہم نے ہوم اسکولنگ کا نظریہ تعلیم متعارف کروایا تھا۔ آج، ہم اس کی ضروریات، فوائد، مشکلات اور غلط فہمیوں پر بات کریں گے۔
ہوم اسکولنگ شروع کرنے سے پہلے اس کی وجہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ کیوں آپ اس کو ترجیح دے رہے ہیں اور آپ کی منزل کا تعین بھی ناگزیر ہے کہ آپ اس تعلیم سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سخت محنت، تڑپ، اور اللہ پر بھروسہ ان کے بغیر ہوم اسکولنگ ایک ادھورا خواب ہوگا۔
ہوم اسکولنگ کے مختلف طریقہ کار جن کے صرف نام یہاں ذکر کر لیتا ہوں۔ جن حضرات کی دلچسپی ہوگی وہ خود اس کو سرچ کر لیں گے۔
Unschooling
Co.Op
Charlotle mason
Montessori
Eclectic
.اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
ہمارے ہوم اسکولنگ اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی سیریز کے دیگر 11 مضامین بھی دیکھیں، جو کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ یہ سلسلہ آپ کو بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے طریقے اور ہوم اسکولنگ کے بارے میں جامع معلومات فراہم کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک عام رواج یہ چل پڑا ہے کہ بچہ جب ذرا بڑا ہو جاتا ہے تب والدین کو ایک فکر لگ جاتی ہے کہ اب اس بچے کو کس اسکول میں داخل کرائے۔ جن والدین کے پاس پیسہ ہوتا ہے وہ تو اپنے شہر کے بڑے پرائیوٹ ادارے میں داخل کرا دیتے ہیں اور جو غریب طبقہ ہوتا ہے وہ سرکاری اسکولوں کو رخ کرتے ہیں اور مڈل کلاس طبقہ وہ اپنے علاقے میں قریب کوئی پرائیوٹ اسکول کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
ان تمام اسکولوں میں شروع شروع میں بچے خوشی خوشی جاتے ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد بچوں کا اسکول جانے کو دل نہیں کرتا ہے۔ پھر والدین انہیں زبردستی بھیجتے ہیں جس دن چھٹی ہوتی ہے وہ دن بچے کی زندگی کا بہترین دن ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اسکولوں میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو مار دیا جاتا ہے۔ وہاں روزانہ کی بنیاد پر بچوں کی عزت نفس مجروح کیا جاتا ہے، انکی نیند پوری نہیں ہوتی، اور ان کو بات بات پر یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم غلط ہو۔ جو ٹیچر نے کہا ہے وہ صحیح ہے اور تم ایک کھلونے ہو جو ٹیچر کی مرضی کے مطابق چلے گا۔ بچوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا اور ان کو پہلے دن سے ایسی چیزوں میں لگایا جاتا ہے جو بے مقصد ہوتی ہیں۔ اُن کی دلچسپی والی چیزیں بہت کم ہوتی ہیں۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر بچے اسکول جانے سے بیزار ہوتے ہیں۔ جس کے بعد وہ علم سیکھنے کے لیے نہیں بلکہ امتحان پاس کرنے اور ڈگری حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں جب انہیں ڈگری مل جاتی ہے، پھر وہ کبھی غلطی سے بھی قلم و کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچہ کو کتنی عمر میں اور کس اسکول میں داخل کیا جائے گا؟ جس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کے لیے 7 سال تک سب سے بہتر ہوم اسکولنگ ہے۔ ہوم اسکولنگ ایک جدید نظریہ تعلیم ہے جس میں والدین بچے کے لیے اپنی مرضی کے استادوں اور نصاب کا انتخاب کر کے انہیں گھر پر ہی تعلیم دیتے ہیں۔ ہوم اسکولنگ روایتی اسکولوں کی تعلیم سے مختلف ہے کیونکہ:
ہوم اسکولنگ میں بچہ وقت، کلاس اور امتحان کے دباؤ سے آزاد ہوتا ہے۔
گھر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کو فطرت کے نظارے، جیسے سمندر، پہاڑ، دریا، چرند، پرندے، درخت، پھول، باغات وغیرہ، بھی دکھائے جاتے ہیں۔ جہاں بچے کھلی فضا میں سانس لیتے ہیں اور کھیلتے ہیں، جس سے اُن کے جسم اور ذہن پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
.اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
پچھلے مضامین میں ہم نے بچوں کو انگلش یا عربی سکھانے کے اصول بتائے تھے، اور وہ اصول صرف انگلش یا عربی تک محدود نہیں بلکہ کوئی بھی زبان سیکھنی ہو تو یہی اصول و آداب ہیں۔
جب بچہ انگلش یا عربی بولتا ہے اور غلطی کرتا ہے یا آپ جب بولتے ہیں اور غلطی کرتے ہیں، تو آس پاس کے لوگ ہنستے ہیں یا مذاق اُڑاتے ہیں۔ یہ مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا علاج کیا ہے؟
1. سوچئے کہ اگر آپ کے دوست آپ کے لطیفے پر ہنس رہے ہیں، تو یہ خوشی کی بات ہے، کیونکہ کسی کو خوش کرنا بھی ثواب ہے۔ لوگ آپ پر ہنس رہے ہیں تو اسے اپنی خامیوں کے بجائے ایک موقع سمجھیں کہ آپ لوگوں کو خوش کر رہے ہیں۔
2. مایوسی گناہ ہے، اس لیے مایوس ہونے کے بجائے محنت کریں اور خود پر اعتماد رکھیں۔
3. یہ سوچئے کہ اگر آپ انگلش یا عربی سیکھتے وقت غلطیاں کریں گے، تو کچھ لوگ ہنسیں گے، لیکن جب آپ سیکھ جائیں گے، تب آپ انہیں خود پر ہنسنے کا موقع دیں گے۔
اگر لوگوں کے ہنسنے سے پہلے آپ خود پر ہنسیں تو لوگوں کی ہنسنے کی طاقت کم ہو جائے گی۔ جب آپ خود پر ہنسیں گے، تو لوگوں کی ہنسی آپ کو پریشان نہیں کرے گی، اور وہ آپ کے ردعمل سے پریشان ہو کر ہنسنا چھوڑ دیں گے۔
لوگوں کے ہنسنے پر مایوس ہونے کے بجائے، محنت کریں اور جلدی سیکھنے کا عزم رکھیں۔ اگر آپ چار مہینے میں سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اسے دو مہینے میں سیکھنے کی کوشش کریں۔
بچوں پر ہنسنے کے بجائے ان کی خود اعتمادی بڑھائیں۔ ویڈیوز اور آڈیوز بنائیں، آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر باتیں کریں، اور خود کو سیکھنے کا موقع دیں۔ غلطیوں کو بوجھ نہ سمجھیں، بلکہ انہیں سیکھنے کا حصہ مانیں۔
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.
ہمارے معاشرے میں، اگر کسی کو کسی زبان میں بولنا آ جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اسے یہ زبان آتی ہے۔ اگر ہم کوئی زبان سیکھنا چاہیں، تو استاد ہمیں اکثر اسٹیج پر سب کے سامنے بولنے کا کہتے ہیں، جو کہ پبلک اسپیکنگ ہے اور بہت ہی مشکل کام ہے۔ اسٹیج پر انسان اپنی زبان نہیں بول سکتا، چہ جائیکہ کوئی دوسری زبان۔
اصل میں بولنا ایک طرف سے نہیں ہوتا، بلکہ بولنے اور سننے کے ملاپ سے جو گفتگو و بات چیت بنتی ہے، اسے بولنا ہم کہتے ہیں۔ ویسے، اسٹیج پر آ کر رٹا لگائی تقریر پڑھ لینا یا سنا دینا، اسے بولنا نہیں کہتے۔ جب بچے نے پڑھنا، لکھنا، اور سننا انگلش یا عربی میں شروع کر دیا، اب آخری مرحلہ اس کے بولنے کا آتا ہے، جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ پہلے تین کام صحیح ہوئے ہیں یا نہیں۔
پاکستانیوں سے انگلش میں بات کرنا مشکل ہوتا ہے، جبکہ انگریزوں سے بات کرنا آسان ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے اندر لوگوں کو جانچنے کی تمنا اُن کو سمجھنے کی تمنا پر غالب ہوتی ہے۔ وہاں، لوگ باتوں کی غرض سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور الفاظ کے گرائمر پر زیادہ دھیان نہیں دیتے۔
اگر آپ اس سلسلے کی پچھلی قست یا حصہ پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں.