امتحان میں شاندار کامیابی کیسے؟؟

آج کل مدارس میں سہ ماہی اور سکولوں میں سالانہ امتحانات ہو رہے ہیں اس وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ امتحان سے متعلق چند باتیں آپ کی خدمت میں پیش کروں تا کہ طلبہ کو فائدہ ہو۔

 امتحان کیوں دیا جاتا ہے ؟

اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ امتحان کیوں دیا جاتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امتحان اس لیے لیا جاتا ہے کہ طالب علم اپنے علم میں پختگی و رسوخ  حاصل کر سکے اور امتحان کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علم میں بیداری اور چستی پیدا ہو جو علم کے اصول اور ضبط میں معاون اور مفید ہے ذیل میں ہم امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے چند امور ذکر کرتے ہیں۔

امتحان کی تیاری کیسے کریں؟؟؟؟

سب سے پہلے تو پچھلی زندگی پر  استغفار کر کے دعا اور محنت سے کام لیا جائے ، دونوں میں سےکسی ایک پر اعتماد نہ کیا جائے

اکثر طلبہ جب امتحان سر پر آجاتا ہے تب امتحان کی تیاری میں لگ جاتے ہیں یہ بالکل غلط طریقہ ہےکیونکہ امتحان کے دن یاد کرنے کے نہیں بلکہ یاد کیے ہوئے کو دہرا کر پختہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔

کامیاب طالب علم اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ امتحان کب آئے گا بلکہ وہ کلاسز کا آغاز ہوتے ہی امتحان کی تیاری شروع کردیتا ہےاور روزانہ کا سبق روز یاد کرتا ہے اس لی طالب علم کو چاہیئے کہ روزانہ جو پڑھے اس کا خلاصہ یاد کر لے اور نظام الاوقات بنا کر محنت کرے اور جتنی محنت اور کوشش کی استطاعت ہو اُتنی محنت کرے حد سے زیادہ تجاوز نہ کرے کہ کھانا ، پینا اور آرام متاثر ہو محنت کے ساتھ ساتھ اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھے زیادہ ٹینشن نہ لے۔

اپنے مزاج کو سمجھنا چاہیئے بعض لوگ تنہائی میں امتحان کی تیاری کو پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ کمبائن سٹڈی کو ترجیح دیتے ہیں تو جیسا مزاج ہو ویسے ہی چلنا چاہیئے امتحان سے ایک مہینہ قبل ہی  روزانہ کے سبق کے ساتھ ہی پچھلے اسباق بھی دوہرانہ شروع کریں اور امتحان کے دنوں میں جس مضمون (سبجیکٹ) کا امتحان ہو تو اس سے متعلق کتاب کا جتنا حصہ کورس میں شامل ہیں اس کو ایک بار ضرور پڑھنا چاہیئے سمجھ کر ہو تو نور علی نور وگرنہ بِلا سمجھے ہی صفحے پر نظر ڈالیں کسی بھی حصے کو آسان یا غیر اہم سمجھ کر نہ چھوڑیں اس کا فائدہ یہ ہو گا اگر امتحان میں آگیا تو کم از کم آپ کو اس کے بارے میں کچھ ہنٹس تو ہونگی جسے لکھ کر آپ تھوڑے بہت مارکس تو حاصل کر لیں گے اس کے بر عکس اگر آپ نے حصہ بالکل دیکھا ہی نہیں ہو تو آپ کے لیے لکھنا اور نمبر لینا بہت مشکل ہو گا اس کے لیے کہا جاتا ہے ۔Some thing is better then nothing

بالکل کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔

جب کتاب ایک مرتبہ مکمل پڑھ لیں تو رات کو  سونے سے پہلے اس کی اہم ابحاث کو ضرور پڑھ لیں اس وقت یاد نہ کریں اور کوشش کریں کہ رات کو جلدی سو جائیں اور پھر صبح جلدی اٹھ کر انہی ابحاث کو دوبارہ دہرائیں امتحان والے دن ناشتہ ضرور کریں بعض طلبہ ناشتہ نہیں کرتے تو پھر پرچے کے دوران کمزوری کی وجہ سے سر چکرانے لگتا ہے امتحان کی تیاری کے لیے اپنی کلاس کے پوزیشن ہولڈر سے یا اپنے سینئر طلبہ یا اساتذہ سے مشورہ کریں پھر وہ جس طرح ہدایات دیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں نیز گزشتہ سالوں کے ماڈل پیپرز کو بھی پیش نظر رکھیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ امتحان میں کسی قسم کے سوالات آتے ہیں اگر ہو سکے تو ایک دو پیپر کو حل کر کے کسی استاد سے چیک کروائیں تا کہ آپ کی تمرین اور مشق ہو جائے اور اپنی غلطیوں کا پتہ چل سکے۔

امتحان کی تیاری کے وقت یہ دعا کرتے رہیں

“اے اللہ ! سوالیہ پرچے میں جو سوالات آئیں گے محض اپنے فضل و کرم سے ان کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما آمین”۔

امتحان گاہ جانے سے پہلے:

 امتحان کے لیے درکار تمام اشیاء مثلاً قلم ، گتہ، رول نمبر سلپ وغیرہ کا اطمینان کر لیں تا کہ امتحان کے دوران پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور احتیاطاً دو قلم اپنے ساتھ رکھیں اور اس بات کا بھی اطمینان کر لیں کہ آپ کے پاس کوئی مشتبہ چیز کوئی پرچی وغیرہ تو جیب میں نہیں تا کہ نگران حضرات کو آپ کے بارے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہ ہو ۔

پرچے والے دن فجر کی نماز پڑھ کر سورہ یٰسین کی تلاوت کریں اور پھر گھر سے روانہ ہونے سے پہلے دو رکعٰت نفل صلوٰۃ الحاجۃ کی نیت سے پڑھیں اور پرچے کی آسانی کے لیے دعا کریں پھر مسنون طریقے سے گھر سے نکل کر مسنون دعا پڑھیں اور روانہ ہو جائیں راستہ بھر منزل پر پہنچنے تک ان مبارک کلمات کا ورد رکھیں۔

یا سبوح ، یا قدوس ، یا غفور ،  یا ودود

عام طور پر طلبہ یہ وقت فضول باتوں میں یا کتاب کو دیکھنے میں صرف کرتے ہیں حالانکہ اس وقت کتاب کو نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے کیونکہ اس مختصر وقت میں کتاب دیکھنے سے ذہنی الجھن ہوتی ہےجس کے غلط اثرات پرچے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔

جب امتحان گاہ میں داخل ہو:

جب امتحان گاہ میں داخل ہو تو آپ کی جو مقررہ جگہ نگران حضرات نے متعین کی ہے اس پر جا کر بیٹھیں اس کے علاوہ دوسری جگہ نہ بیٹھیں ورنہ نگرانوں کی نظر میں آپ مشکوک ہو جائیں گے جوابی پرچے پر کچھ ہدایات لکھی ہوتی ہے انہیں غور سے پڑھیں اور کچھ خالی جگہیں پُر کرنی ہوتی ہے انہیں پُر کریں اس میں بے احتیاطی سے پرچے کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

امتحان گاہ میں کسی سے نہ کوئی بات پوچھیں اور نہ کسی کو کچھ بتائیں سوالیہ پرچہ ملنے تک مسلسل یہ دعا پڑھتے رہیں۔

افوض امری الی اللہ ان اللہ  بصیر بالعباد

جب آپ سوالیہ پرچہ وصول کریں :

تو گیارہ مرتبہ یا ناصر ، یا نصیر ، یا قادر ، یا قدیر پڑھ کر پوری توجہ سے سوالات کو اول سے آخر تک بغور دیکھیں اور یہ عمل بار بار کریں پہلے ہی سوال کو آسان دیکھ کر فوراً لکھنا شروع نہ کریں

ممتحن (ایگزمنر) کی مراد سمجھنے کی کوشش کریں سب سے پہلے اس سوال کا انتخاب کریں جسے آپ پوری تفاصیل کے ساتھ لکھ سکتے ہیں۔

پرچہ کس طرح حل کریں؟؟؟؟

سب سے پہلے یہ سوچیں کہ امتحان کے یہ تین یا چار گھنٹے آپ کی پوری زندگی پر اثر انداز ہونگے لہٰذا آرام آرام سے اور صاف اور خوشخط لکھنے کی کوشش کریں اور ایسے انداز و اسلوب سے لکھیں کہ پرچہ چیک کرنے والا متاثر ہو جائے اور ذہن میں یہ رکھیں کہ آپ کسی کو کوئی چیز سمجھانا چاہتے ہیں اس لیے عنوانات سرخیاں ( ہیڈ لائنز) لگا کر جواب لکھیں تا کہ پرچہ چیک کرنے والے کو سہولت ہو اور وہ نمبر دینے میں فراغ دلی سے کام لے۔

جس زبان میں پرچہ حل کر رہے ہیں اس سے متعلقہ قواعد ، املا اور رموز اوقاف کا خوب خیال کرکھیں۔

پورا سوال لکھنے کی ضرورت نہیں صرف سوال نمبر لکھ کر جواب لکھنا شروع کریں۔ مثلاً (اردو میں) پہلے سوال کا جواب (عربی میں) الجواب عن السوال الاول

(انگلش میں)   Question No.1

جواب کی تفصیل سے پہلے جواب کے اہم اور چیدہ چیدہ نکات کو ترتیب دے کر پورے جواب کو اپنے ذہن میں مکمل مرتب کریں۔ جواب لکھتے وقت ذہن کو صرف اسی سوال تک  منحصر رکھیں جس کا جواب لکھ رہے ہیں دیگر سوالات کے جوابات اس وقت ہرگز ذہن میں نہ سوچیں اس سے لکھا جانے والا سوال متاثر ہو گا اگر کوئی بات ذہن میں نہیں آ رہی تو جگہ چھوڑ کر اس سے اگلی شق (جز) لکھنا شروع کریں اور یاد آنے پر چھوڑی ہوئی جگہ میں تحریر کر دیں کسی عبارت کو مٹانا ہو تو خط تنسیخ (x) لگا کر چھوڑ دیں وقت مقررہ کا خیا ل رکھیں موزوں سے ہٹ کر کوئی بات فضول قسم کے نقش و نگار اور اشعار نہ لکھیں۔ بہتر یہ ہے کہ سیاہ روشنائی کا استعمال کریں جتنے سوالوں کا جواب مطلوب ہے اتنے ہی لکھیں اضافی سوال کا جواب نہ لکھیں اور نہ ہی کسی سوال یا کسی جز کو چھوڑیں ایسا بھی نہ کریں کہ ایک سوال تو تفصیل سے لکھ دیا او ر باقی سوالات چھوڑ دیئے کتاب کے مطابق لفظ بہ لفظ لکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف جواب کا مفہوم واضح کریں۔

دینی مدارس کے امتحان میں اگر کوئی اختلافی مسلہء آ جائے تو پہلے یوں خلاصہ کریں۔

فیہ ثلاثہ مباحث : الاول۔بیان المذاہب، الثانی، بیان ،الادلۃ، الثالث، بیان الاجابۃ عن ادلۃ الائمۃ اسی طرح عصری اداروں کے طلبہ جواب لکھنے سے پہلے خلاصہ لکھیں کہ اس سوال میں فلاں فلاں چیز پوچھی گئی ہے اس کی تعین کرنے کے بعد اس کا جواب تحریر کریں ۔

پرچہ ختم کرنے کے بعد اس پر نظر ثانی ضرور کریں اس سے پرچے میں رہ جانے والے نقص کو دور کیا جا سکتا ہے  اگر اضافی صفحات ہو تو ان اصل پرچے کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر جمع کرائیں اور یاد رکھیں امتحان میں اٹینڈنس (حاضری) ضرور لکھیں ورنہ آپ غیر حاضر شمار ہونگے ۔

امتحان کے بعد کیا کریں؟؟؟؟؟؟

امتحان کے بعد اچھے مارکس حاصل کرنے کے بعد یہ دعا ہر فرض نماز کے بعد (7) مرتبہ پڑھیں۔

یا قادر قدرلی الدرجۃ العلیا بفضلک العظیم

یا اپنی زبان میں یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اچھے نمبروں سے پاس فرمائیں۔

پھر اگر نتیجے میں کم نمبر آئے تو مایوس نہ ہو اور کسی استاد سے بد گمانی یا کسی کی برائی نہ کریں اور نہ ہی پوزیشن حاصل کرنے والے ساتھیوں سے حسد کریں بلکہ اپنی کوتاہیوں پر غور کریں پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ رضا بالتقدیر یعنی اپنی تقدیر پر راضی رہیں اور عزم مصمم، بلند نگاہی اور بلند حوصلگی کے ساتھ مستقل محنت جاری رکھیں۔

تحریر:     محمد افضل کاسی

Pin It on Pinterest

Share This

Share This

Share this post with your friends!

Share This

Share this post with your friends!

Open chat
1
Scan the code
Hello
Can we help you?